قصور: سفاک قاتل بچ نہ پائے

293

پنجاب کے شہر قصور میں7 سال کی بچی زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل سفاکی اور درندگی کی انتہا ہے ۔ اسے ہلاک کر کے کچرے کے ڈھیر میں ایسے پھینک دیا گیا جیسے کوڑا کرکٹ اور ناکارہ شے پھینکی جاتی ہے ۔ اس پر شہریوں کا احتجاج بالکل بجا تھا مگر پولیس نے اپنی خصلت کے مطابق ہجوم پر براہ راست گولی چلا دی جس سے دو افراد جاں بحق ہو گئے ۔ پنجاب پولیس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے کوئی سبق نہیں سیکھا جہاں پولیس کی فائرنگ سے14افراد جاں بحق ہو گئے تھے اور یہ معاملہ اب تک وزیر اعلیٰ اور وزیر قانون پنجاب کے گلے پڑا ہوا ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا صرف یہ کام رہ گیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کے گھر جا کر تعزیت کرنا اور مرحومین کے لیے رقم کا اعلان کرنا ۔لیکن کیا بڑی سے بڑی رقم بھی کسی کی جان کا بدل ہو سکتی ہے ۔ قصور میں ز ینب کا بہیمانہ قتل پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ان معاملات میں شہر قصور انتہائی منفی شہرت حاصل کر چکا ہے ۔ یہ بابا بلھے شاہ جیسے صوفی کا شہر ہے لیکن یہاں کے لوگ درندے بن چکے ہیں۔ قصور میں ا س سے پہلے بھی ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں ۔ بچیوں سے زیادتی کے بعد قتل کا یہ12واں واقعہ ہے ۔ ان میں سے صرف ایک بچی کائنات زندہ بچ گئی تھی ۔ پولیس نے ان تمام واقعات کی رپورٹ تو درج کی لیکن عملاً کچھ نہیں کیا ۔ اس سے پہلے قصور ہی میں300 بچوں کے ساتھ زیادتی کے گھناؤنے واقعات سامنے آئے تھے جو کچھ عرصے تک ذرائع ابلاغ میں شور شرابے کے بعد سرد خانے کی نذر ہو گئے ۔ زینب کو5 روز قبل ٹیوشن پر جاتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا ۔ اس عرصے میں پولیس کیا کرتی رہی ، اس سوال کا جواب کون دے گا ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کہتے ہیں کہ زینب کے قتل کی تحقیقات کی نگرانی وہ خود کریں گے لیکن اس بارہی کیوں؟ اس سے پہلے جو واقعات ہوئے ان کی تحقیقات کے لیے شہباز شریف میدان میں کیوں نہیں آئے ۔ اگر ان واقعات کے ذمے دار گرفت میں لے لیے جاتے تو شاید زینب آج زندہ ہو تی ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے متحرک ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ زینب کا قتل سیاسی رنگ اختیار کر رہا ہے اور شریف حکومت کے مخالفین کو حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے ایک اہم موقع مل گیا ہے اور لگتا ہے کہ یہ تحریک معصوم زینب کی لاش پر چلے گی ۔ زینب کے والد کا تعلق منہاج القرآن سے ہے ، نماز جنازہ انہوں نے ہی پڑھائی ہے چنانچہ وہ پورے جوش و خروش ے نئی مہم چلائیں گے ۔ معاملے کو سیاسی رنگ دینے کا فائدہ قاتلوں کو پہنچے گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قصور کے عوام ایسا زبر دست احتجاج نہ کرتے تو یہ معاملہ بھی کچھ دن میں فراموش کر دیا جاتا ۔ دوسرے دن جمعرات کو بھی قصور میں ہنگامہ کیا گیا اور مسلم لیگ ن کے ایک رکن صوبائی اسمبلی کے ڈیرے پر حملہ کر کے توڑپھوڑ کی گئی ۔ کئی گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے گئے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مشتعل افراد نے ایک اسپتال پر حملہ کر کے سامان تباہ کر دیا ، عملہ جان بچا کر بھاگ نکلا ۔ ایسے اشتعال کی حمایت نہیں کی جا سکتی کہ اسپتال ، اسکول وغیرہ تو عوام کے لیے ہوتے ہیں ، کسی قاتل کی ملکیت نہیں ہوتے اور نہ ہی کسی حکمران کی جائداد ہوتی ہے کہ اس پر غصہ نکالا جائے ۔ قصور سمیت ملک بھر میں بچوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پورے معاشرے کے اخلاقی زوال کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی پولیس کی بے حسی اور عدم کارکردگی بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ قصور پولیس کا کہنا ہے کہ بچیوں سے زیادتی اور قتل میں ایک ہی شخص ملوث ہے ۔ پولیس کو یہ اعتراف کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے کہ وحشی درندے کو پکڑا کیوں نہیں جا سکا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ200 تفتیش کار6ماہ سے کوشش کر رہے ہیں مگر ناکام ہیں ۔ اب قاتل کی نشاندہی کے لیے ایک کروڑ روپے کے انعام کا اعلان کیا گیا ہے ۔ زینب کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ زینب کو اغوا کرنے والے شخص کی فوٹیج5روز پہلے پولیس کو دی گئی تھی ۔ پولیس نے اس کی بنیاد پر جو خاکہ جاری کیا ہے وہ فوٹیج سے مطابقت نہیں رکھتا لیکن پولیس نے اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے جلدی میں بنائے گئے خاکے پر کئی افراد کوپکڑ لیا ۔ جہاں تک فوٹیج کا تعلق ہے تو اس میں بچی بڑے اطمینان سے اپنے اغوا کار کا ہاتھ پکڑے جا رہی ہے جس سے واضح ہے کہ وہ کوئی جان پہچان والا شخص ہوگا ۔ اب ہر طرف سے شدید احتجاج کے بعد امید ہے کہ قاتل پکڑا جائے گا ۔ چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے لیا اور سپہ سالار نے بھی قاتل کی گرفتاری کی ہدایت کر دی ۔ زینب کے والدین عمرے پر گئے ہوئے تھے ، یہ المناک خبر سن کر واپس آ گئے ۔ ان کو بھی شکوہ ہے کہ پولیس نے تعاون نہیں کیا ۔ اسی اثناء میں شیخو پورہ اور فیصل آباد سے بچوں سے زیادتی اورقتل کے مزید دو واقعات سامنے آ گئے ۔ راولپنڈی میں9 ویں جماعت کے طالب علم کو اغوا کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔ معاشرے کا ہر طبقہ یک زبان ہے کہ قاتلوں کو سخت ترین سزا دی جائے اور انہیں چوک پر پھانسی دی جائے ۔ لیکن صرف حکومت پنجاب پر تنقید کرنے والے پیپلزپارٹی کے رہنما یہ بھی یاد رکھیں کہ ایسے واقعات سندھ میں بھی پیش آ چکے ہیں ۔ بدھ کے اخبارات کی ایک خبر ہے کہ ناقص تفتیش کے باعث کراچی میں بچی سے زیادتی اور قتل کا ملزم7سال بعد بری ہو گیا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11بچے زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں ۔ صرف 2016ء میں100بچے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور یہ واقعات صرف پنجاب تک محدود نہیں گو کہ سر فہرست ہے ۔ دیہی علاقوں میں پیش آنے والے جنسی زیادتی کے بیشتر واقعات پولیس میں رپورٹ بھی نہیں ہوتے ۔ یہ واقعات پورے معاشرے ، حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والوں کے لیے باعث شرم ہیں کہ ان کی وجہ سے پاکستان کا انتہائی کریہہ چہرہ سامنے آ رہا ہے یہ الگ بات ہے کہ بھارت اس وقت خواتین کی عصمت دری میں سر فہرست ہے اور یورپ و امریکا میں مذہبی پیشوا بچوں سے زیادتی کے لیے بدنام ہیں مگر پاکستان کے دشمن پاکستان ہی کو نشانہ بنائیں گے ۔