امریکا امن نہیں چاہتا

353

پاکستان کا ہر شہری پریشان ہے کہ ٹرمپ کا دماغ چل گیا ہے جو اس نے پاکستان کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے‘ واچ لسٹ میں شامل کرلیا ہے‘ ٹرمپ کے ٹویٹ کے بعد قوم ایسے متحد ہوئی جیسے یہ مٹی‘ پتھروں سے بنا ہوا پہاڑ‘ عام شہری سے لے کر ماہرین تک سب یہی کہہ رہے ہیں کہ اپنے پاؤں پر جینا سیکھیں اور پرائے جھگڑوں میں نہ پڑیں‘ ناٹو کو راستہ نہ دیں‘ تو ٹویٹ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں گے۔
امریکی صدر ٹرمپ کے 2018ء کے پہلے ٹویٹ سے یہ اندازہ تو اچھی طرح ہو گیا کہ اِس سال پاک امریکا تعلقات کی نوعیت کیا رہے گی؟ ایسے محسوس ہوتا ہے، امریکی فوج کی موجودگی کے باوجود افغانستان میں بگڑتی ہوئی صورتِ حال کی وجہ سے صدر ٹرمپ خاصے دباؤ میں ہیں۔ اُن کا یہ فیصلہ بھی فائربیک کر چُکا ہے جو اُنہوں نے اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ بیت المقدس مُنتقل کرنے کا اعلان کرکے کیا تھا، اِس مسئلے پر اُنہیں دُنیا کے کِسی ملک کی حمایت نہیں ملی، جنرل اسمبلی میں قرارداد پیش ہونے سے پہلے اقوام مُتحدہ میں مستقل امریکی مندوب نے بہت سے مُلکوں کو خط لکھے کہ وہ اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ نہ دیں بصورتِ دیگر اُن کی امداد بند کر دی جائیگی، لیکن اس کے باوجود 128 مُلکوں نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، مخالفت میں 9 ووٹ پڑے جن میں امریکا اور اسرائیل کے سوا باقی ممالک وہ تھے جن کے نام بھی زیادہ معروف نہیں ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ دُنیا کے کِسی ملک نے اس مسئلے پر امریکا کی حمایت نہیں کی، دھمکی بھی کارگر نہیں ہوئی تو صدر ٹرمپ نے اِن خطوط پر سوچنا شروع کر دیا کہ امریکا سے امداد لینے والے ممالک بھی اس کی پالیسیوں کی حمایت کیوں نہیں کرتے۔ چناں چہ اُنہیں وہ 33ارب ڈالر یاد آ گئے جو امریکا نے پاکستان کو 15سال کے عرصے میں دیے، لیکن اُنہیں پاکستان کا وہ کردار بھول گیا جو اس نے سوویت یونین کو افغانستان سے واپس بھیجنے میں ادا کیا۔
سوویت یونین کی فوجیں جب افغانستان کی ایک سرد رات کو داخل ہوئیں تو ساری مغربی دُنیا پر لرزہ طاری تھا، اُن کے سامنے سوویت یونین کی کشور کشائی کی پوری تاریخ تھی، کہا جاتا تھا کہ سوویت یونین جہاں بھی گیا وہاں سے کبھی واپس نہیں لوٹا، افغانستان میں روسی فوجوں کے قدم رکھتے ہی یہ حقیقت تسلیم کر لی گئی تھی کہ اب اگر روس آگے بڑھنا چاہے تو اُسے کوئی طاقت نہیں روک سکتی لیکن اس وقت پاکستان نے یہ فیصلہ کیا کہ روسی فوجوں کو نہ صرف آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا بلکہ ایسی حکمت عملی بھی اختیار کی جائے گی کہ روس کو واپس جانا پڑے۔ ماضی کو سمجھے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے‘ پاکستان کے لیے امداد روکنا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے امریکا کے صدر کارٹر نے پاکستان کو جس امداد کی پیش کش کی تھی، صدر جنرل ضیاء الحق نے اسے ’’مونگ پھلی‘‘ کہہ کر مُسترد کر دیا تھا اور اب بھی ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ آؤ اور آڈٹ کرلو‘ اور حساب کتاب کر لیتے ہیں کہ اس خطہ میں امن کے لیے پاکستان نے کیا کچھ نہیں کیا‘ اسلام آباد کے اس جواب کے بعد امریکا کو چپ لگ گئی ہے۔
سوویت یونین کی شکست کے بعد امریکا واحد سُپر طاقت رہ گئی اس کے تمام تر منفی اثرات پاکستان اور اس کے معاشرے پر پڑے ٹرمپ جب سے برسراقتدار آئے ہیں وہ پاکستان کے لیے جس انداز میں امریکی امداد کا ذکر کرنے لگے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان امریکا کو بے وقوف بناتا رہا یہ بُہت ہی افسوس ناک ہے۔ امریکی امداد کے مقابلے میں پاکستان کی معیشت کو 125 ارب ڈالر کا نقصان اُٹھانا پڑا، جانی نقصان کی قدر و قیمت کا تو کوئی شمار و قطار ہی نہیں محسوس ایسے ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ افغانستان میں جس کامیابی کی اُمید لگائے بیٹھے تھے اس کا خواب چکنا چور ہو چُکا ہے ٹرمپ کے پورے عہد میں تعلقات ایسی ہی سردمہری کا شکار رہیں گے اس خطہ میں بھارت‘ ایران‘ چین اور افغانستان ایسے ممالک ہیں جن کے ساتھ پاکستان کئی طرح سے جڑا ہوا ہے دیکھنا یہ ہے کہ ایران میں اچانک حالات خراب ہوئے اور کہا جارہا ہے کہ وہاں تبدیلی آرہی ہے کیا یہ صورت حال پاکستان پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟ یہ بھی اہم موضوع ہے اس پر بات ہونی چاہیے۔
بنیادی طور پر ’’سبز تحریک‘‘ ان رہنماؤں کی حمایت سے چلائی گئی تھی جو اس وقت کے صدر محمود احمدی نژاد کے مقابلے میں انتخاب ہار گئے تھے قم کے مظاہروں سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا گیا کہ حکومت کے خلاف بغاوت ہوگئی ہے یہ درست پس منظر نہیں تحریک بنیادی طور پر تو مہنگائی، اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بے روزگاری کے خلاف شروع کی گئی ہے ایران میں صدر براہِ راست عام لوگوں کے ووٹوں سے مُنتخب ہوتا ہے ایک مجلسِ خبرگان ہے جو منتخب ادارہ ہے، جو ہر امیدوار کا جائزہ لے کر فیصلہ کرتی ہے کہ وہ صدارتی منصب کا اہل بھی ہے یا نہیں جب بھی انتخاب کا وقت آتا ہے سو ڈیڑھ سو کے لگ بھگ امیدوار میدان میں ہوتے ہیں اور مجلسِ خبرگان کی چھلنی میں چھن کر مقابلہ براہِ راست دو امیدواروں میں ہوتا ہے ایران میں ایک صدر زیادہ سے زیادہ دو ٹرم کے لیے مُنتخب ہو سکتا ہے موجودہ صدر حسن روحانی کی دوسری مُدت جاری ہے اور وہ ایک ایسے امیدوار کو شکست دے کر دوسری مرتبہ صدر مُنتخب ہوئے ہیں جسے سُپریم لیڈر کی حمایت حاصل تھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ صدر سُپریم لیڈر کے حمایت یافتہ امیدوار نہیں تھے ایرانیوں کا خیال تھا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں ایران پر پابندیاں ختم ہوں گی تو مہنگائی ختم ہوگی اور افراطِ زر قابو میں آ جائے گا جس نے ایرانی معیشت کو بُری طرح متاثر کیا تھا ایرانی عوام مہنگائی سے تنگ تھے اور وہ حسن روحانی کی پالیسیوں کے خلاف بھی احتجاج کر رہے تھے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ اس خطہ کا کوئی ملک بھی ایک دوسرے کے حالات سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا لہٰذا یہاں امن سب کی ضرورت ہے لیکن بھارت اور اس کے سرپرست امریکا کا رویہ امن کے خلاف ہے۔