صدر ممنون حسین کا خط صدر ٹرمپ کے نام

221

بابا الف کے قلم سے

پیارے صدر ٹرمپ!
میں خیریت سے ہوں اور آپ کی خیریت خداوند کریم سے نیک مطلوب چاہتا ہوں۔ امید ہے ہماری بھابی، بھتیجی اور بھتیجا خیریت سے ہوں گے۔ آپ مجھے بھول گئے ہوں گے لیکن ہم بھلانے کی کوششوں کے باوجود آپ کو بھلانے میں کامیاب نہیں ہوپا رہے۔ آپ کے صدر منتخب ہوتے ہی میں نے آپ کو مبارکباد کے لیے فون کیا تھا۔ لیکن آپریٹر نے پہلے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا فون لگا دیا۔ آپ نے ان کو باتوں کے استرے سے ایسا مونڈا کہ پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ تعریف کررہے ہیں یا بیوقوف بنا رہے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے بات کرنی چاہی تو آپ نے ہمارے ساتھ اس طرح بات کی جیسے کوئی بلندی سے چھلانگ لگاتے ہوئے بات کررہا ہو حالاں کہ ہم نے بار بار کہا کہ ہم پاکستان کے صدر ہیں۔ لیکن کون سنتا ہے فغان پریزنڈنٹ آف پاکستان۔
مارک ٹوئن نے نہ جانے کہاں لکھا ہے کہ شروع میں ہم لوگ اتنے غریب ہوتے تھے کہ رات کو چوروں سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں خود ہی بھونکنا پڑتا تھا۔ جامع کلاتھ میں جہاں ہم رہتے تھے وہاں کتے رکھنے کی ضرورت نہیں ساری رات بازار جاگتا رہتا اور لوگ شور کرتے رہتے ہیں۔ ترقی کرنے کے بعد ہم ڈیفنس اور اب ایوان صدر منتقل ہوگئے ہیں لیکن نہ جانے کیوں لوگ آج بھی طعنہ دینے کے انداز میں ہمیں جامع کلاتھ کے حوالے ہی سے یاد کرتے ہیں۔ خود ہماری بھی یہی کیفیت ہے۔ ایوان صدر میں ہمیں ہر طرح کی نعمت میسر ہے لیکن آج بھی برنس روڈ کے مناظر یاد آتے ہیں۔
فٹ پاتھ سے لگا گول گپے کا وہ ٹھیلا
جلیبی والے کی دکان بھاشانی کی
چائے کی چسکیاں لیتے لوگ
کوئی بھی آج نظر نہیں آ رہا
چائے تو آپ سمجھ گئے ہوگئے۔ گول گپے اور جلیبی نے مسئلہ کردیا ہوگا۔ آج آپ کو گول گپے کے بارے میں بتادیتا ہوں۔ دنیا میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ایک وہ جو گول گپے کھاتے ہیں دوسرے وہ جوگول گپے نہیں کھاتے۔ عام طور پر لوگ گول گپوں کو محض کھانے پینے کی چیز سمجھتے ہیں۔ نہ جانے کیوں گول گپوں کو پی آر کا ذریعہ نہیں بنایا جاتا۔ پاکستان میں اس فن کا بانی آپ کا یہ خادم ہے۔ گول گپے بڑی بابرکت چیز ہیں۔ میں نے کبھی مسلم لیگ ن کے جلسوں میں تقریریں نہیں کیں۔ کبھی ا ن کے احتجاجوں کا حصہ نہیں بنا۔ اجلاسوں میں بھی کبھی کبھار ہی شرکت کی۔ لیکن دیکھ لیجیے آج گول گپوں کی برکت سے ایوان صدر میں بیٹھا ہوں۔ میاں صاحب جب بھی کراچی آتے، گول گپوں کی فرمائش کرتے تھے اور ہم برنس روڈ کی خاص دکانوں سے گول گپے منگوا کر انہیں کھلاتے تھے۔ سوچتا ہوں دوچار درجن آپ کو بھی بھیج دوں۔ پتا نہیں آپ میٹھی چٹنی پسند کریں گے یا نہیں۔ بھابی جی سے پوچھ کربتا دیجیے گا۔ پہلی فلائٹ سے اپنی نگرانی میں بنوا کر پارسل کردوں گا۔ گول گپے کی دکانوں پر پارسل کا خاص انتظام ہوتا ہے۔ بہرحال بات ہورہی تھی گول گپوں کے فوائد کی۔ آپ کو ایک گر کی بات بتاتا ہوں۔ اسرائیل کے دورے میں بھابی جی کچھ ناراض نظر آرہی تھیں۔ بار بار آپ کا ہاتھ جھٹک رہی تھیں۔ آئندہ بھابھی جی ناراض ہو جائیں تو انہیں منانے کے لیے مہنگے تحائف دینے کی ضرورت نہیں۔ انہیں گول گپے کی دکان پر لے جائیں اور ہنستے ہوئے شرط لگائیں کہ دیکھیں کون زیادہ گول گپے کھاتا ہے۔ اور پھر شرط ہار جائیں۔ بیگم صاحبہ گول گپے پھٹنے اور اس کے پانی سے کپڑے بچانے کے چکر میں ایسا پھنسیں گی ناراضی وراضی سب بھول جائیں گی اور پھر شرط جیتنے کی خوشی الگ۔ ویسے گول گپوں کی پیشکش دیکھ کر کرنی چاہیے۔ لاہور میں ایک سیاست دان کو ہم نے گول گپے کھانے کے لیے کہا تو بولا ’’یہ گول گپے منہ میں جانے سے پہلے تو نائیں پاٹتے نہ۔‘‘ معذرت چاہتا ہوں گول گپے میری کمزوری ہیں۔ لوگ کہتے ہیں میں گول گپوں کی تعریف میں رشتہ کرانے والی آنٹیوں کی طرح مبالغہ کر دیتا ہوں جو ہر بچی کی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’ماشااللہ سے بچی اتنی سگھڑ ہے کہ مٹر بھی چھیلے تو ہر دانہ گول نکلتا ہے۔‘‘
سیاست دان کہیں کا بھی ہو ہمیں اس کی تقریر گول گپوں کی طرح لگتی ہے۔ گول مول۔ جس میں بہت زیادہ گپ بھری ہوتی ہے۔ عوام ان تقریروں اور گپ کے چکر میں ایسے پھنستے ہیں کہ گول گپوں کی طرح چورا چورا ہوجاتے ہیں۔ رشتے ناتے بھی گول گپوں کی طرح نازک الطبع ہوتے ہیں ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ لیکن رشتے ناتوں اور دوست یاری کی آپ کو کیا خبر۔ امریکا کو ہمارے یہاں ’’یارمار‘‘ سمجھا اور کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے عوام کے باب میں یہ بات درست ہوسکتی ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام کو امریکا سے ہمیشہ نقصان ہی پہنچا۔ لیکن پاکستان کے حکمرانوں کی بات دوسری ہے۔ انہیں امریکا سے ہمیشہ فائدہ ہی پہنچا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو آج جوکچھ بھی دستیاب ہے وہ اللہ کے بعد امریکا ہی کا عطا کردہ ہے۔ پاکستان میں آج کل امریکا کے خلاف جو بیان بازی چل رہی ہے۔ برائے مہربانی اس سے آزردہ مت ہوں۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ ذرا آپ کے ٹوئٹ کی گرد بیٹھ جائے، ہم پھر باجماعت دست بستہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ میں اس موقع پر آپ کی خدمت میں کوئی شعر پیش کرنا چاہ رہا تھا۔ لیکن کوئی شعر یاد ہی نہیں آرہا۔ اپنے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بھی فون کیا کہ طائر لاہوتی اور پرواز والا شعر سنا دیں لیکن عدلیہ کے فیصلے کے بعد جب سے وہ نااہل ہوئے ہیں یہ شعر بھی بھول گئے ہیں۔ اب سوچا غیر محل ہی سہی آپ کو اپنا پسندیدہ شعر سنا دیتا ہوں
پچیس میں چھ ملیں گے گول گپے دکان سے
اور آٹھ گر خریدیے بتیس روپے کے ہیں
یہ جو آپ نے دنیا کو اپنے ٹوئٹس کی نوک پر رکھا ہوا ہے۔ یہ مناسب بات نہیں ہے۔ اگر آپ کو اپنی پی آر بڑھانی ہے، لوگوں سے روابط استوار کرنے ہیں تو ان کے معدے کی راہ سے دماغ تک پہنچیے۔ یہ وہ چال ہے جو جوکر کی طرح ہر ترپ میں فٹ بیٹھتی ہے۔ پچھلے مہینے میں نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو گاجر کا حلوہ بھیجا۔ انہوں نے میری تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملادیے۔ اس موقع پر انہوں نے اعتراف کیا کہ صدر ممنون حسین مجھ سے بھی اچھی کوکنگ کرتے ہیں۔ یہ بات ان کی گہری ’’سیاسی بصیرت‘‘ کا اظہار ہے۔ کھانے پینے کا ذکر چھڑ جائے تو پھر ہمیں کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ اوئے اب یاد آیا کہ یہ خط میں نے تجھے کیوں لکھا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ تونے اپنے قرضے کی واپسی کا تقاضا کیا ہے۔ بہت بدتمیزی کی ہے۔ پاکستان کے متعلق بری بری باتیں کی ہیں۔ اوئے تو اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے۔ چین والی آپا سے مل کر ہم نے کمیٹی ڈالی ہے۔ کمیٹی کھلتے ہی پیسے تیرے منہ پر ما ردیں گے۔