میاں منیر احمد
نواز شریف اب بھی کہہ رہے ہیں کہ انہیں مزید زخم نہ لگائے جائیں، وہ زخموں کو بھول جانا چاہتے ہیں۔ یہ نئے زخم کون لگا رہا ہے؟ نواز شریف نے مجیب الرحمن کو جس طرح محب وطن ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کیا یہ قوم کے سینے پر زخم نہیں؟ مسلم لیگ (ق) کے صدر و سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین نے بروقت جواب دیا کہ نوازشریف شیخ مجیب الرحمن کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینے سے پہلے اس کی بیٹی اور بنگلا دیش کی موجودہ وزیراعظم حسینہ واجد کا پاکستان دشمن کردار بھی سامنے رکھیں۔ حسینہ واجد جب سے وزیراعظم بنی ہیں بنگلا دیش میں پاکستان کے حامیوں کو چن چن کر پھانسیاں دے رہی ہیں کسے معلوم نہیں کہ حسینہ واجد نے ملکی اور عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر بنگلا دیش میں جماعت اسلامی کے امیر مولانا مطیع الرحمن نظامی، سیکرٹری جنرل علی احسن مجاہد، سیکرٹری اطلاعات عبدالقادر ملا، اسلامی ماہر معیشت میر محمد قاسم اور سابق اسپیکر بنگلا دیش اسمبلی فضل القادر چودھری کے صاحبزادے صلاح الدین عبدالقادر کو پھانسیاں دی ہیں، مولانا محمد اعظم کو نوے سال کی عمر میں نوے سال عمر قید کی سزا سنا دی گئی اور وہ جیل ہی میں شہید ہوگئے۔
نوازشریف کی جانب سے شیخ مجیب الرحمن کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینے سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ نوازشریف نے بطور وزیراعظم کیوں ان پھانسیوں پر کوئی سخت ردعمل ظاہرنہیں کیا تھا نواز شریف کو چاہیے کہ اپنی نااہلی کا غصہ پاکستان کو زخم لگانے کی حمایت کرکے نہ اتاریں بلکہ پارلیمنٹ میں اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کے کردار کو بڑھائیں اور یہ بات سمجھ لی جانی چاہیے کہ شیخ مجیب الرحمن اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں لیکن ان کی بیٹی پاکستان دشمنی میں اپنے باپ سے بھی آگے بڑھ چکی ہیں۔ نوازشریف شیخ مجیب الرحمن کی تعریف کے پردے میں حقیقتاً اس کی بیٹی حسینہ واجد کے پاکستان دشمن کردار کی تعریف کر رہے ہیں جو انتہائی قابل مذمت ہے اور ہر پاکستانی کو ان کے ملک دشمن رویے سے سخت تکلیف پہنچی ہے مسلم لیگ (ن) تو ہے ہی ان کی اپنی جماعت اور انہیں یہ بھی یقین ہے کہ پوری جماعت ان پر جان چھڑکتی ہے، وگرنہ تو اقتدار سے ہٹتے ہی بہت سے لوگ بھی بدل جاتے ہیں ان کے لیے تو آج کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی ہر محفل میں نعرہ زن ہیں اور علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کل بھی وزیراعظم تھے، آج بھی ہیں اور کل بھی رہیں گے وہ تو ایک آئینی عہدے دار ہونے کے باوجود عدالت عظمیٰ پر تنقید کرتے ہیں اور یہ تک کہہ دیتے ہیں نواز شریف کے خلاف عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ردی کی ٹوکری کی نذر ہوجائے گا، کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ نیب عدالت میں جو مقدمات چل رہے ہیں، انہیں روک دیا جائے یا ان کی خواہش یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں ان کی جماعت اور ان کی بیٹی کا راستہ نہ روکا جائے؟ نواز شریف بھی نشتر زنی کررہے ہیں وہ کھلے لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ انہیں حساب دینا پڑے گا نواز شریف آئے روز یہ مکالمے بولتے ہیں اور مسلسل ٹی وی چینلوں پر دکھائے جاتے ہیں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ نواز شریف کو جتنا اس حوالے سے نظر انداز کیا جارہا ہے، وہ اتنا ہی اشتعال میں آتے جارہے ہیں۔ ان کے دل کا آپریشن بھی ہوچکا ہے اور عمر بھی خاصی ہے، کیا اتنا ذہنی دباؤ اور نفسیاتی تناؤ ان کے لیے مناسب ہے؟ دیکھا جائے تو زخم انہیں کوئی اور نہیں بلکہ وہ خود لگا رہے ہیں اصل کام یہ ہے، یہ نہیں کہ صبح و شام یہ راگ الاپا جائے کہ عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کو کیوں نکالا یا عدلیہ پاکستان میں جمہوریت دشمن کا کردار ادا کررہی ہے۔ یہ سب فضول باتیں ہیں۔ عدلیہ نے دستیاب شواہد کے مطابق فیصلہ دیا اب اسے تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
اگر پوری مسلم لیگ (ن) بشمول نواز شریف عدلیہ پر تنقید کا راستہ اپنا لیتی ہے، تو بات صرف یہی ہوگی کہ نواز شریف کو درست نااہل قرار دیا گیا یا غلط؟ میاں صاحب نے تو اب کہا ہے، ہم تو پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں دل بڑا کرکے اپنی نا اہلی کے فیصلے کو بھول جانا چاہیے اور سیاست میں اپنی جماعت اور خاندان کے کردار کا از سر نو تعین کرکے آگے بڑھنا چاہیے وہ خوامخواہ اپنا دل بھی جلا رہے ہیں وہ تین بار ملک کے وزیراعظم بن چکے ہیں، اب انہیں اس منصب پر نظر رکھنے کے بجائے آگے کی سوچنی چاہیے۔ ان کی دیکھا دیکھی مریم نواز بھی اسی راستے پر چل نکلی ہیں جو اداروں سے ٹکراؤ کا راستہ ہے، حالاں کہ انہیں اگر مستقبل کی سیاست اور بعد ازاں اقتدار میں کوئی کردار ادا کرنا ہے تو خود کو قابل قبول بنانا پڑے گا یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جو آئینی ادارے ہیں، ان کو کہیں نہیں جانا، نہ ہی ختم ہونا ہے، وہ ایک مسلمہ حقیقت ہیں، انہیں تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان کسی احتجاج یا تحریک سے متاثر نہیں ہوتے، کیوں کہ انہیں آئین کا تحفظ حاصل ہوتا ہے رہی بات ان نیب ریفرنسوں کی، جو نیب، عدالت میں چل رہے ہیں، تو ایک بہتر قانونی لڑائی سے انہیں بھی غیر موثر کیا جاسکتا ہے شریف خاندان ثبوت دینے میں سرگرمی دکھائے۔