الیکشن کمیشن کا اہم اقدام

369

الیکشن کمیشن پاکستان نے گزشتہ جمعہ کو ایک بڑا کام کیا ہے۔ 284سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ کر کے انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے۔ یہ بات باعث حیرت نہیں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ 284 تو وہ جماعتیں ہیں جن کی رجسٹریشن منسوخ ہوئی ہے اور جن کو استثنا حاصل ہے ان کی تعداد ملا کر 400 سے اوپر جاتی ہے ان میں کئی جماعتیں ایسی ہیں جو صرف چند افراد پر مشتمل ہیں جن کو سیاسی لیڈر کہلانے کا شوق ہے۔ ایسی جماعتوں کے قائدین کو غیر منقسم ہندوستان میں قائد اعظم نے ’’ گریک جنرلز‘‘ کہا تھا۔ کسی زمانے میں یونان کی فوج میں متعدد جرنیل تھے لیکن ان کے پیچھے فوجی نہیں ہوتے تھے۔ قائد اعظم کا یہ اشارہ مسلم لیگ کے مقابلے میں مسلمانوں کی نمائندگی کی دعویدار جماعتوں کی طرف تھا۔ پاکستان میں تو شہر شہر سیاسی جماعتیں موجود ہیں جو قوم کی نمائندگی کی دعویدار ہیں لیکن ان میں سے کئی محض علاقائی گروہ یا جتھے ہیں جو مخصوص مفادات کے تابع ہیں۔ مطلوبہ کوائف جمع نہ کرانے پر پابندی کی زد میں آنے والی جماعتوں میں جمعیت علما اسلام ( سمیع الحق گروپ)، متحدہ مجلس عمل، ایم کیو ایم، نیشنل پارٹی، مسلم لیگ فنکشنل، پیپلز پارٹی پیٹریاٹ اور سنی تحریک بھی شامل ہیں ۔ پیپلز پارٹی پیٹریاٹ تو جنرل پرویز مشرف کی آمریت کو مستحکم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے جیالے فیصل صالح حیات نے بنائی تھی اور پی پی کے کئی ارکان کو توڑ کر پرویز مشرف کے وزیر داخلہ بن گئے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کبھی بے نظیر کی پارٹی میں نہیں جائیں گے۔ لیکن وہ گھوم پھر کر دوبارہ پیپلز پارٹی میں آگئے گو کہ اب وہ زرداری کی پارٹی میں آئے ہیں ۔ ان کی پیٹریاٹ پارٹی تو عرصے سے گم اور گمنام ہے چنانچہ اس پارٹی پر کیا پابندی لگانا جس کا وجود ہی محض کاغذوں میں ہو۔ البتہ مسلم لیگ فنکشنل سندھ کی ایک مضبوط جماعت ہے اور کبھی یہ ملک گیر جماعت تھی۔ جب پاکستان کے پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان نے اپنے ایک بہت ’’ معتمد‘‘ وزیر کے مشورے پر سیاسی شناخت بنانی چاہی تو ان کی نظر بھی مسلم لیگ پر پڑی اور لیگیوں کا کنونشن بلا کر کنونشن مسلم لیگ بنا ڈالی جس کے جنرل سیکرٹری وہی معتمد عمومی بنے جن کو آج بھی ان کے حواری جمہوریت کا چیمپئن باور کراتے ہیں۔ اس کے جواب میں مسلم لیگ کے رہنما پیر صاحب پگاڑا (مرحوم) نے فنکشنل مسلم لیگ کا اعلان کردیا۔ یہ مسلم لیگ تو اب بھی خاص طورپر سندھ میں فنکشنل ہے لیکن کنونشن مسلم لیگ جنرل ایوب خان کے ساتھ ہی گئی۔ پرویز مشرف نے بھی مسلم لیگ پر کمبل ڈالاتھا اور قائد اعظم مسلم لیگ کا سنگ بنیاد رکھ دیا جو عرف عام میں ق لیگ کہلاتی ہے اور چودھری برادران اسے زندہ رکھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ امکان ہے کہ فنکشنل مسلم لیگ اپنی رجسٹریشن بحال کرالے گی۔ ویسے بھی الیکشن کمیشن نے ان جماعتوں کو 30دن کے اندر عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے چنانچہ جن جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ ہوئی ہے ان میں سے کئی بحال ہوجائیں گی۔ ان پر یہی الزام تو ہے کہ انہوں نے مطلوبہ کوائف جمع نہیں کرائے۔ یہ عوامی نمائندگی کی دعویدار جماعتوں کی نا اہلی ہے کہ جو مطلوبہ کوائف فراہم نہ کرسکیں وہ کیا کارکردگی دکھائیں گی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے تمام سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ نئے الیکشن ایکٹ کے تحت اپنے کم از کم دو ہزار کارکنوں کی فہرست مع ان کے شناختی کارڈ نمبر فراہم کردی جائے، علاوہ ازیں سیاسی جماعت کی رجسٹریشن فیس دو لاکھ روپے بھی دو دسمبر تک جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ لیکن بیشتر سیاسی جماعتوں نے ان ہدایات کو نظر انداز کردیا چنانچہ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 202کی شق 5کے تحت 284 جماعتوں کو اپنی فہرست سے خارج کردیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بہت سی سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کو اس کا جائزاور قانونی مقام دینے پر تیار نہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان بھی ایک عرصے تک الیکشن کمیشن کے اختیارات تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے اور بے سبب الجھتے رہے۔ دوسرا اہم سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کئی سیاسی جماعتیں اپنے دو ہزار کارکن ہی ڈھونڈتی رہ گئیں اور خاموش ہو کر بیٹھ رہیں۔ الیکشن کمیشن کی یہ شرط نہایت اہم ہے کہ ملک اور قوم کی قیادت کرنے والی جماعتوں کے پاس کم از کم دو ہزار کارکن تو ہوں ورنہ ’’ گریک جنرلز‘‘ کی پھبتی پر پوری اتریں گی۔ سیاسی جماعتوں کا چھانٹی کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انہیں انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے لیکن حاصل کردہ ووٹوں کی ایک تعداد مختص کردی جائے کہ اس سے کم حاصل کرنے پر انہیں سیاسی جماعتوں کی فہرست سے خارج کردیا جائے۔ یہ صورت حال مضحکہ خیز ہے کہ کوئی بھی چند افراد جمع کر کے اپنا جھنڈا بلند کردے اور سیاسی مجاور بن کر بیٹھ جائے۔ بہرحال یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اس کی تائید کرنی چاہیے۔