عمۃ النبی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب

28

حضرت صفیہ کہتی ہیں کہ اب میں نے خود اپنی کمر باندھی پھر ستون کی ایک لکڑی لی اور اس کے بعد قلعے سے اتر کر اس یہودی کے پاس پہنچی اور لکڑی سے مار مار کر اس کا خاتمہ کر دیا ۔ اس کے بعد قلعے میں واپس آئی اور حسان ؓ سے کہا جایے اس کے ہتھیار اور اسباب اتار لیجیے چونکہ وہ مرد ہے لہٰذا میں نے اس کے ہتھیار نہیں اتارے حسان ؓ نے کہا’’ مجھے اس کے ہتھیار اور سامان کی کوئی ضرورت نہیں ‘‘۔
انہوں نے حضرت حسان ؓ سے یہودی کا سر کاٹ کر قلعے سے نیچے پھینکنے کے لیے کہا تاکہ یہودی بنو قریطہ کو کٹا ہوا سر دیکھ کر یقین ہو جائے کہ قلعے میں مسلمانوں کی فوج موجود ہے ۔
انہوں نے اس میں بھی عذر کیا چنانچہ اس بہادر خاتون نے خود ہی سر کاٹ کر قلعے کے نیچے پھینک دیا ۔
بنو قریطہ اس یہودی کا حشر دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے اور انہیں قلعے میں حملہ کرنے کی ہمت نہ پڑی ۔ یوں حضرت صفیہ کی اس دلیرانہ اقدام نے مسلمان عورتوں اور بچوں کو یہودیوں کے پنجہ ستم سے بچا لیا ۔
غزوہ احزاب کے وقت حضرت صفیہ ؓ کی عمر اٹھاون برس کے لگ بھگ تھی لیکن ہمت اور حوصلہ میں آپ نے جوانوں کومات کر دیا تھا ۔ ادھر بنو قریطہ کی بد عہدی کی اطلاع جب رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ پر شدید مایوسی طاری ہوئی آپ ﷺ نے اپنا سر اور چہرہ کپڑے سے ڈھانک لیا اور دیر تک چت لیٹے رہے اس کیفیت میں آپ ﷺ کو دیکھ کر لوگوں کا اضطراب اور بڑھ گیا ۔
پھر آپ ﷺ پر امید چہرہ لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا
’’ مسلمانوں! اللہ کی مدد اور فتح کی خوش خبری سن لو‘‘
اس کے بعد آپ ﷺ نے مدینہ کی نگرانی اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے کسی کو بھیجنے کا ارادہ کیا آپ ﷺ نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا ۔
’’ کون بنو قریطہ کی خبر لاتا ہے؟‘‘
حضرت صفیہ ؓ کے لاڈلے حضرت زبیر ؓ نے بڑھ کر عرض کی ۔
’’ یا رسول اللہ میں جاتا ہوں‘‘
سرور عالم نے تین مرتبہ اپنے الفاظ دہرائے اور تینوں مرتبہ حضرت زبیر ؓ نے اپنے آپ کو اس پر خطر کام کے لیے پیش کیا حضور ان کے جذبہ فدویت سے بہت خوش ہوئے حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اسی موقع پر الفاظ ارشاد فرمائے ۔
’’ ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا خواری زبیر ؓ ہے ‘‘
صحیح بخاری میں حضرت زبیر ؓ کے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ نے ایک روایت نقل ہے کہ غزوہ احزاب میں عمرو بن ابی سلمہ اور زبیر بن عوام کو عورتوں کے ساتھ کر دیا گیا تھا ۔ میں نے انہیں دو تین دفعہ گھوڑے پر سوار ہو کر بنو قریطہ کی طرف جاتے دیکھ جب شام کو میری ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا ’’ ابا جان میں نے آپ کو (بنی قریطہ) کی طرف جاتے دیکھا تھا حضرت زبیر ؓ نے فرمایا’’ بیٹا تم نے مجھے دیکھا تھا؟‘‘
میں نے کہا’’ہاں‘‘ حضرت زبیر ؓ نے فرمایا
’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کون بنو قریطہ کی خبر لاتا ہے؟
میں گیا اور واپس آیا تو حضور ﷺ نے میرے لیے اپنے ماں باپ جمع کیے اور فرمایا
فداک ابی و امتی( میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں)
یہ الفاظ زبان رسالت سے حضرت زبیر بن عوام اور حضرت سعد بن ابی وقاص کے سوا کسی کے لیے نہیں نکلے ۔ حضرت صفیہ کو اپنے اس با سعادت فرزند پر بے حد فخر تھا ار یقیناً یہ بات باعثِ فخر تھی ۔
حضرت صفیہ انتہائی زیرک ، دور اندیش ، بہادر ، اور صابر خاتون تھیں اللہ نے انہیں فہم سخن سے بھی نوازا تھا ۔ سیرت کی بعض کتابوں میں ان کے کہے ہوئے چند مرثیے ملتے ہیں ۔ جن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت فصیح و بلیغ تھیھں ۔ سن11ھ میں جب رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوا تو حضرت صفیہ ؓ پر کوہ الم ٹوٹ پڑا انہوں نے اس موقع پر نہایت درد ناک مرثیے کہے آپ کے چند اشعار یہ ہیں
یا رسول اللہ آپ ہماری امید تھے
آپ ﷺ ہمارے محسن تھے ظالم نہ تھے
آپ ﷺ رحیم تھے ہدایت دینے الے اور تعلیم دینے الے تھے
آج ہر رونے والے کو آپ ﷺ پر رونا چاہیے
ایک اور مرثیہ کا مطلع ہے
اے آنکھ رسول اللہ کی وفات پر خوب آنسو بہا
حضرت صفیہ ؓ رسول اللہ کی وفات کے بعد چند سال ہی زندہ رہیں ان کا انتقال حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں ہوا ۔ اس وقت ان کی عمر 73سال تھی جنت البقیع میں انہیں دفنایا گیا ۔
ختم شد