سریع انصاف ہی عدلیہ کی اصلاح ہے

346

عدالت عظمیٰ پاکستان کے سربراہ جناب جسٹس میاں ثاقب نثار نے عدالت ہائے عالیہ کے سربراہوں کو ہدایت کی ہے کہ 90 روز میں مقدمات نمٹادیا کریں انہوں نے کراچی میں جوڈیشل کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں اپنے گھر کو منظم کرنا ہے۔ عدالتی اصلاحات کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے لیکن حکومت ہماری تجاویز کا جواب نہیں دے رہی ہے۔ قانون سازی پارلیمنٹ کرے انصاف میں تاخیر کا مسئلہ بڑا مسئلہ ہے لیکن اس کی ذمے دار عدلیہ نہیں، تاخیر قانونی سقم کی وجہ سے ہوتی ہے چیف جسٹس کے اس اعلان پر بہر حال عوام کو ریلیف کا احساس ہوا ہگا کہ ججز 90 روز میں مقدمات نمٹائیں۔ یہ قانونی اصطلاح ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ مقدمہ نمٹادیا گیا لیکن اس اصطلاح کے استعمال کے ساتھ ساتھ عملاً یہی ہو بھی رہا ہے کہ عدالتیں مقدمات نمٹادیتی ہیں۔ لوگ اپنا مسئلہ عدالتوں میں نمٹانے کے لیے نہیں انصاف کے لیے لے جاتے ہیں۔ لہٰذا اس امر پر بھی زور دینے کی ضرورت ہے کہ 90 روز میں انصاف فراہم کیا جائے۔ ان کی ہدایت یہ ہے کہ تین ماہ سے زیر التوا مقدمات 30 روز میں نہ نمٹانے والے ججز کے خلاف کارروائی کریں گے۔ ہمارے خیال میں پارلیمنٹ اپنا کام کرے نہ کرے لیکن چیف جسٹس نے اپنا گھر منظم کرنے کے لیے جو اقدامات اور ہدایت جاری کی ہے اس سے اچھے امکانات پیدا ہوتے نظر آرہے ہیں۔ جب کہ پارلیمنٹ کو بھی اس حوالے سے اپنی ذمے داری پوری کرنی چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہاہے کہ ججز پر اعتماد کریں الزام تراشی نہ کریں۔ یہ بالکل ٹھیک مطالبہ ہے لیکن اس میں جو کام کرنا ہے وہ حکومت سے زیادہ عدلیہ کو کرنا ہے کیونکہ اعتبار فیصلوں سے قائم ہوتا ہے مطالبے یا بیان سے نہیں۔ پاکستانی عدلیہ کا ماضی اس حوالے سے بڑا بدنما رہا ہے لیکن جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تحریک کے بعد سے عدلیہ میں بہتری آتی جارہی ہے۔ فی الحال میاں نواز شریف عدلیہ کے خلاف مہم پر نکلے ہوئے ہیں ان کی جانب سے غلط بیانیوں اور اپنے معاملات صاف رکھنے میں ناکامی اپنی جگہ ہے لیکن عدالت کی جانب سے پاناما سے اقامہ تک کے سفر اور تنخواہ چھپانے کی مبہم بنیاد پر نا اہلی نے انہیں یہ موقع دیا ہے۔ میاں صاحب کو ویسے شرمندہ ہونا چاہیے تھا کہ کسی ملک کا وزیراعظم کھربوں روپے کی جائداد کا مالک دس ہزار درہم کی ملازمت کے کاغذات بنوارہا ہے۔ تنخواہ لے یا نہ لے اسے کیا مصیبت پڑی تھی کہ ایسے کاغذات بنوائے۔ بہر حال یہ کام اکیلے عدلیہ کا نہیں اور تنہا حکومت بھی یہ معاملات نہیں ٹھیک کرسکتی اس کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہوگی۔ حکومت اور عدلیہ کو ایک دوسرے کے دائروں میں داخل ہونے سے بچنا ہوگا بلکہ ایک دوسرے کو اپنے اپنے کام کرنے میں تعاون دینے کی ضرورت ہے۔