بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ اور یو آن میں تجارت

454

ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری

آئی ایم ایف ہو یا ورلڈ بینک یا پھر عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز ہو یہ تمام ادارے پاکستان کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے پر اپنے اپنے خدشات، شبہات اور خطرات کا اظہار کررہے ہیں کہ آنے والے وقت میں یہ خسارہ بڑھتا جائے گا اور پھر پاکستانی معیشت مزید مشکلات میں گھر جائے گی اور اگر اس پر قابو پانے کے لیے روپے کی قدر میں کمی کی تو مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہوگا اور پاکستانی روپے میں بیرونی قرضوں کی مالیت بڑھ جائے گی۔ دوسری طرف ڈالر پر دباؤ اور بڑھ جائے گا اور پاکستان کو بانڈ یا سکوک کی شکل میں مزید قرضہ لینا ہوگا یا پھر آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز کرنا ہوگا۔ غرضیکہ پاکستان کا بیرونی شعبہ جو اس وقت شدید مشکل میں ہے اس کے بہتر ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
حقیقت یہ ہے کہ 2013ء سے لے کر 2017ء تک پاکستانی برآمدات کم ہو کر 25 سے 21 ارب ڈالر تک آگئیں۔ برآمدات میں کمی دوسرے ممالک میں بھی ہوئی مثلاً اس عرصہ میں چین اور بھارت میں بھی برآمدات میں کمی آئی جب کہ اسی عرصہ میں بنگلا دیش اور ویتنام میں برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جن ممالک میں برآمدات میں کمی آئی اس کے ساتھ ساتھ ان کی درآمدات بھی کم ہوگئیں جب کہ پاکستان کا معاملہ اس کے برعکس ہے، یہاں گزشتہ چار سال میں حکومت کی نااہلی اور لاپروائی کی وجہ سے برآمدات تو کم ہوگئیں لیکن درآمدات 40 ارب ڈالر سے 52 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سال 2016-17ء میں تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر ہوگیا اور رواں مالی سال یعنی 2017-18ء کے پہلے چھ ماہ میں برآمدات 14 فی صد اضافے کے ساتھ 11.24 ارب ڈالر ہوگئیں جب کہ درآمدات 28 ارب ڈالر کے نشان تک پہنچ گئیں اور تجارتی خسارہ شروع کے چھ ماہ میں 28 ارب ڈالر ہوگیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پورے مالی سال میں پاکستان کا تجارتی خسارہ ایک محتاط تخمینے کے ساتھ 56 ارب ڈالر ہوگا اور اتنی بھاری رقم پاکستان درآمدات کی ادائیگی کے لیے کہاں سے حاصل کرے گا اور اس کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے۔ یہ ہے وہ مسئلہ یا چیلنج جو پاکستانی معیشت اور معاشی اور مالیاتی ارباب اقتدار کے سامنے ہے۔
اس بدتر صورت حال کی حکومت پوری طرح ذمے دار ہے اور حکومت کا مطلب ہے کہ اسحاق ڈار جو پورے چار سال معاشی، مالیاتی، نجکاری، محاصل کی وصولیابی اور خزانے کے تمام امور کے بے تاج بادشاہ تھے، اس پورے عرصے میں انہوں نے برآمدکنندگان کے 200 ارب دبائے رکھے اور ادائیگی کی یقین دہانی کراتے رہے اور یہ صاف سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ ایک کاروباری شخص کے پاس اگر سرمایہ ہی نہ ہو تو وہ قابل فروخت اشیا کی کیا پیداوار کرے گا۔ دوسری طرف ٹیکسوں کی وصولیابی کا سہرا اپنے سر باندھنے کی خاطر کارخانوں، فیکٹریوں اور دوسری تجارتی سرگرمیوں پر طرح طرح کے ٹیکس عائد کردیے جس سے پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی اور برآمدات کے بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات دوسرے ممالک سے آنے والی مصنوعات کے مقابلے میں مہنگی ہوگئیں اور مسترد کردی گئیں تو اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا جو ہمارے سامنے ہے۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو حکومت کی آنکھیں کھلیں اور 180 ارب روپے کا برآمدات بڑھاؤ پیکیج جاری کیا گیا جو اس وقت بھی چل رہا ہے اس کا تھوڑا بہت مثبت اثر ہوا ہے کہ رواں مالی سال سے چھ ماہ میں برآمدات میں 14 فی صد اضافہ ہوا ہے لیکن مجموعی طور پر بیرونی شعبے پر اس کا بہت زیادہ اثر نہیں ہوگا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک طرف تو آئل کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان ہے جس سے آئل کا درآمدی بل بڑھ جائے گا، دوسری طرف جیسے جیسے سی پیک کے منصوبوں میں تیزی آئے گی مشینری، آٹو موبائل اور دوسرے صنعتی ساز و سامان کی درآمدات بڑھ جائے گی جس سے برآمد اور درآمد کا فرق بڑھ کر تجارتی خسارے میں اضافہ کردے گا۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے حکومت نے پاکستان اور چین کے درمیان تجارت یو آن میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسٹیٹ بینک نے 2 جنوری کو اس سلسلے میں باضابطہ پریس ریلیز جاری کردی ہے جس کے مطابق چینی کرنسی یوآن دنیا کی اُن کرنسیوں میں پاکستان میں شامل ہے جن کے ذریعے تجارت، سرمایہ کاری اور لین دین ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے پاکستان کے تجارتی بینکوں کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ چینی کرنسی میں اکاؤنٹ کھولے جاسکتے ہیں۔ درآمدکنندگان اپنے مال کی خرید کے لیے لیٹر آف کریڈیٹ یوآن میں کھول سکتے ہیں۔ معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق اس عمل سے پاکستانی معیشت پر ڈالر کا انحصار کم ہوگا اور چین سے اشیا کی درآمدی لاگت بھی کم ہوگی۔ چین نے تو گوادر میں چینی کرنسی میں لین دین کی اجازت بھی مانگی تھی جو پاکستان نے نہیں دی، اسی طرح چین کے صنعتی و تجارتی بینک نے یوآن میں بانڈ جاری کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جو پاکستانی حکومت نے قبول نہ کیا۔
پاکستان کے تجارتی بینک اس وقت یوآن میں اکاؤنٹ کھولنے اور لیٹر آف کریڈیٹ جاری کرنے کے طریقہ کار اور قوانین کی تشکیل میں مصروف ہیں اور جلد ہی پاکستانی تاجروں کو یوآن میں اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت ہوگی۔ ان تمام اقدامات اور فیصلوں کے بعد پاکستان کے بیرونی شعبے کا حال کیا بہتر ہوجائے گا اور اس دباؤ سے نکل جائے گا جس میں وہ اس وقت پھنسا ہوا ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔