سیاسی شہ بالا!

164

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی نااہلی کی خواہش رکھنے والے عدلیہ کے فیصلے سے سخت مایوس ہوئے ہیں، اس مایوسی کا سبب عدلیہ کا فیصلہ نہیں، مخالفین کی بے لگام خواہش ہے کیوں کہ انہیں اس حقیقت کا احساس تھا کہ عمران خان کی نااہلی کا کوئی معقول جواز نہیں تھا، کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا،

جہانگیر ترین کا معاملہ بدترین تھا، عمران خان کبھی اقتدار میں نہیں آئے تھے سو، انہیں قومی مجرم ثابت کرنا ممکن نہ تھا، عمران خان کا مقدمہ جمائما خان سے جڑا ہوا تھا اس لیے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ عمران خان بنی گالا کی ملکیت کا ثبوت نہ پیش کرسکیں، یوں بھی جن قوتوں نے پاناما کا تماشا لگایا تھا وہ عمران خان کو نااہل ہونے نہیں دیتے۔ ان کا ہدف صرف میاں نواز شریف تھے، نشانچی ماہر نشانہ باز ہو تو گولی آؤٹر پر نہیں گل زری (ہدف) پر ہی لگتی ہے۔

یادش بخیر! جب جمائما خان کی شادی عمران خان سے ہوئی تھی تو ہم نے ایک کالم ’’وزارت عظمیٰ، جمائما کا جہیز آئٹم‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا حالاں کہ اس وقت عمران خان کے وزیراعظم بننے کے امکانات معدوم تھے اور اب اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ وزارت عظمیٰ عمران خان کے کسی بیٹے کا نصیب ٹھیرے۔

سنا ہے سود خور جب کوئی منصوبہ بناتے ہیں تو اس کی تکمیل کے لیے ایک صدی مختص کرتے ہیں ان کا منصوبہ سو برسوں پر محیط ہوتا ہے۔

یہ غلط فہمی، یہ آپس کا کھینچاؤ ختم ہو
دم گھٹا جاتا ہے اعصابی تناؤ ختم ہو
پھل گرے، پتے گرے آخر شجر گرنے لگے
یہ تماشا تو اب اے پاگل ہوا ختم ہو

جو قوتیں عمران خان کو سیاست میں لائی تھیں وہ عمران خان کو وزیراعظم دیکھنا چاہتی تھیں مگر ان کی یہ خواہش، یہ کاوش عمران خان کے غصے اور احساس برتری نے پوری نہ ہونے دی۔ عمران خان کا تعلق میاں والی سے ہے اور میاں والی کے لوگ فطرتاً غصیل ہوتے ہیں، لڑنے مرنے سے گریز نہیں کرتے۔ پختونوں کی طرح سرنگوں ہونے کے بجائے سر قلم کرانا پسند کرتے ہیں،

عمران خان کچھ زیادہ ہی غصیل واقع ہوئے ہیں، فاسٹ بولنگ نے سونے پہ سہاگے کا کام کیا۔ کرکٹ ٹیم کی کپتانی نے ان کے غصے کو اور بڑھادیا، سیاست میں قدم رنجہ ہوئے تو سبھی کو اپنی ٹیم کا لڑکا سمجھنے لگے، آج تک ان کی سمجھ میں یہ بات نہ آسکی کہ سیاست کی پچ اور کرکٹ کی پچ میں بہت فرق ہوتا ہے، دونوں متضاد چیزیں ہیں، وہ سیاست کو بھی کرکٹ کا میچ سمجھ رہے ہیں مگر انہیں سیاست کے میدان میں اتارنے والے یہ بات سمجھ گئے کہ غصہ اور اشتعال سیاست میں شجر ممنوع کی حیثیت رکھتا ہے جو شخص مصلحت اندیش نہ ہو وہ سیاست کی پچ پر زیادہ دیر تک کھڑا نہیں رہ سکتا۔ غالباً جمائما خان بھی عمران خان کی خانیت کے سامنے کھڑی نہ رہ سکی۔

میزان منصفوں نے جھکا دی ہے کس طرف!۔
سب جاہلوں کو شہر میں دانائی مل گئی

کہتے ہیں بارہ سال کے بعد گھوڑے کے دن بھی پھر جاتے ہیں، عمران خان کو تو سیاست میں لگ بھگ دو عشرے گزر چکے ہیں سو، ان کے دن بھی پھر سکتے ہیں، ان سے ناامید ہونے والے بھی پُرامید ہونے لگے ہیں، انہیں اُمید ہونے لگی ہے کہ عمران خان سیاست کے میدان میں قابل ذکر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں، ان کی پیش قدمی کو نیک شگون سمجھا جارہا ہے۔

عمران خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ عدلیہ عمران خان کو صادق و امین قرار دے چکی ہے اس لیے وزیراعظم ہاؤس کا دروازہ کھل چکا ہے اور لب جام دو چار ہاتھ کے فاصلے پر ہے مگر وہ یہ بھول رہے ہیں کہ کھلا ہوا ہر دروازہ ہر کسی کے لیے اذن عام نہیں ہوتا۔

ہر ایک موڑ پہ رہزن ملے خلوص لیے
بہت تلاش کیا راہنما نہیں ملتا