اسامہ کے بعد حافظ سعید نشانے پر

518

ممتاز عالم دین، ایک مذہبی جماعت اور ایک فلاحی ادارے کے سربراہ اور کشمیر کاز کے سرگرم وکیل پروفیسر حافظ محمد سعید کو پچھلے دنوں لاہور ہائی کورٹ نے عدم ثبوت کی بنا پر رہا کردیا تھا جس پر بھارت اور امریکا کا شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کا اصرار تھا کہ حافظ سعید دہشت گردی میں ملوث ہیں اس لیے ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگائی جائے لیکن عدالتیں تو ثبوت اور شواہد مانگتی ہیں، حکومت کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہ تھا جو وہ عدالت میں پیش کرتی، اس لیے اسے پسپا ہونا پڑا اور عدالت نے اپنا فیصلہ صادر کردیا۔ حافظ صاحب نے نظر بندی ختم ہوتے ہی اپنی معمول کی سرگرمیاں شروع کردیں۔ ان کی نظر بندی کے دوران اُن کے رفقا نے ملّی مسلم لیگ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بھی قائم کرلی تھی۔ اگرچہ اس جماعت کو الیکشن کمیشن نے ابھی تک رجسٹر نہیں کیا، اس کا موقف ہے کہ وزارت داخلہ اس جماعت کو کلیئر کرے گی تب ہی اس کی رجسٹریشن ممکن ہوسکے گی۔ تاہم ملّی مسلم لیگ کے نمائندے نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ چناں چہ حافظ سعید صاحب نے اپنی نظر بندی کے خاتمے کے بعد اس حلقے کا دورہ کیا، ووٹروں سے ملاقاتیں کیں اور اس حلقے میں ملّی مسلم لیگ کے انتخابی دفتر کا بھی افتتاح کیا جس سے میڈیا میں یہ بات پھیل گئی کہ حافظ صاحب آئندہ انتخابات میں خود اس حلقے سے الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے اس خبر کو خوب اچھالا اور اس میں مزید مرچ مسالا لگا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ حافظ سعید پاکستان کے ’’پردھان منتری‘‘ بن کر ملک کو دہشت گردوں کا گڑھ بنانا چاہتے ہیں اس طرح مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی بڑھ جائے گی اور علاقے کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ امریکا نے بھی بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے حافظ صاحب کے الیکشن میں حصہ لینے کی خبروں پر سخت تشویش ظاہر کی۔ امریکی محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ حافظ صاحب ممبئی حملے کے ماسٹر مائنڈ ہیں اور امریکا نے اس سلسلے میں ثبوت فراہم کرنے والے کے لیے ایک کروڑ ڈالر کا انعام مقرر کر رکھا ہے۔ واضح رہے کہ امریکا نے بدنام زمانہ ممبئی حملے کے فوراً حافظ صاحب کے خلاف معلومات فراہم کرنے والے کے لیے اس انعام کا اعلان کیا تھا اس حملے کو کئی سال گزر چکے ہیں امریکا اور بھارت کی خفیہ ایجنسیاں اس حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کا سراغ لگانے اور ان سے حافظ سعید کا تعلق جوڑنے کے لیے مسلسل کام کرتی رہی ہیں لیکن سوائے ناکامی کے ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا بلکہ اس کے برعکس خود بھارت میں بعض ذمے دار عناصر نے یہ انکشاف کیا کہ ممبئی حملے کا خونیں ڈراما بھارت کا اپنا رچایا ہوا تھا اس کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا اور عالمی رائے عامہ کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے ہٹانا تھا۔
بہر کیف امریکا اور بھارت حافظ سعید کی سرگرمیوں کے بارے میں تشویش میں مبتلا تو تھے ہی، 29 دسمبر کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دفاع پاکستان کونسل کے زیر اہتمام القدس کی آزادی کے حوالے سے کانفرنس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور یہ دونوں ملک جل بھن کر راکھ ہوگئے۔ دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین اگرچہ مولانا سمیع الحق ہیں لیکن اس میں حافظ محمد سعید کو مرکزی قائد کی حیثیت حاصل ہے اور ان کی جماعۃ الدعوۃ کونسل کے اجتماعات میں سرگرم کردار ادا کرتی ہے۔ مذکورہ کانفرنس کا انتظام بھی جماعۃ الدعوۃ کے کارکنوں نے سنبھال رکھا تھا۔ حافظ سعید اس جلسے کے بنیادی مقرر تھے انہوں نے جلسے کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے خطبہ جمعہ دیا اور اس میں وہ ساری باتیں کیں جو امریکا اور بھارت کو ناگوار گزرتی ہیں پھر نماز جمعہ پڑھائی۔ نماز جمعہ کے بعد کانفرنس کی باضابطہ کارروائی شروع ہوئی تو اسٹیج پر حافظ سعید کے ساتھ فلسطینی سفیر بھی بیٹھے نظر آئے جس پر بھارت آگ بگولا ہوگیا۔ اس نے فوراً فلسطینی اتھارٹی سے احتجاج کیا کہ ہم تو جنرل اسمبلی میں آپ کے حق میں ووٹ دیتے ہیں لیکن پاکستان میں آپ کا سفیر ہمارے دشمنوں کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ یہ احتجاج اتنا موثر تھا کہ فلسطینی اتھارٹی نے فوراً پاکستان سے اپنا سفیر بلالیا اور سفیر کی اس ’’حرکت‘‘ پر بھارت سے نہ صرف معذرت کی بلکہ جنرل اسمبلی میں امریکا کے خلاف ووٹ دینے پر اس کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اگرچہ بعد میں سفیر کو واپس بھیجا گیا۔ بلاشبہ یہ بھارت کی موثر سفارت کاری کا بھرپور مظاہرہ تھا جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان کی حکومت نہایت خاموشی سے اس کھیل کو دیکھتی رہی، اس نے اتنا ردعمل ظاہر کرنا بھی ضروری نہ سمجھا کہ فلسطینی سفیر نے القدس کی آزادی کے حوالے سے کانفرنس میں شرکت کرکے کسی سفارتی آداب کی خلاف ورزی نہیں کی اور ایک ملک کے ناروا احتجاج پر سفیر کو واپس بلانا سفارتی تقاضوں کے منافی ہے بلکہ اس کے برعکس حکومت کا یہ ردعمل سامنے آیا کہ اس نے حافظ سعید کو نظر بند تو نہیں کیا البتہ ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگادی۔ وہ پشاور میں منعقدہ دفاع پاکستان کونسل کی القدس کانفرنس میں شرکت نہ کرسکے اور انہیں کانفرنس سے ٹیلیفونک خطاب کرنا پڑا۔
اگرچہ اس وقت پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے، امریکا نے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں دی جانے والی گرانٹ روک لی ہے، فوجی تعاون بھی ختم کردیا ہے، پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت بھی اس حوالے سے پُروقار ردعمل کا اظہار کررہی ہے لیکن باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا کی سوئی درحقیقت حافظ سعید پر اٹکی ہوئی ہے، امریکی اہلکار برملا کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی حکومت کی طرف سے حافظ سعید کے ساتھ نرم رویہ رکھنے پر امریکی امداد روکی گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حکومت نے حافظ صاحب کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی وہ انہیں مسلسل نظر بند رکھنا چاہتی تھی لیکن اس کے پاس اپنی اس حرکت کا کوئی قانونی جواز نہ تھا، اس لیے عدالت کو انہیں رہا کرنا پڑا۔ وہ رہا تو ہوگئے ہیں لیکن ان کی آزادی پر پہرے بٹھادیے گئے اور حکومت نے امریکا کو راضی کرنے کے لیے ان کی تنظیموں خاص طور پر ان کی فلاحی تنظیم ’’فلاح انسانیت فاؤنڈیشن‘‘ پر بڑی بے رحمی سے ہاتھ ڈال دیا ہے۔ حالاں کہ یہ تنظیم بالکل غیر سیاسی اور غیر مذہبی بنیادوں پر دکھی انسانیت کے لیے کام کررہی تھی، اس کی ساڑھے تین سو ایمبولینس گاڑیاں پورے ملک میں شب و روز مستحق مریضوں کی خدمت میں مصروف تھیں کہ انہیں کام سے روک دیا گیا ہے اور فاؤنڈیشن کے بے شمار رفاہی منصوبوں کو بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جماعۃ الدعوۃ کی تمام مذہبی سرگرمیوں پر بھی پابندی لگادی گئی ہیں۔ امدادی کاموں کے لیے چندہ جمع کرنا بھی جرم قرار پایا ہے، جو لوگ یہ کام کریں گے ان پر ایک کروڑ جرمانہ اور پانچ سال قید کی سزا لاگو ہوگی، ایک طرف حکومت امریکا کے عائد کردہ دہشت گردی کے الزامات کو مسترد کررہی ہے، دوسری طرف اندرون ملک ان لوگوں کو نشانہ بنارہی ہے جو امریکا کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں اور جنہیں وہ بغیر کسی ثبوت کے دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔ باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ اس کارروائی کا واحد مقصد امریکا کو راضی کرنا ہے تا کہ روکی ہوئی امداد بحال ہوسکے۔ اب 25 جنوری کو اقوام متحدہ کا ایک وفد پاکستان آرہا ہے جو حکومت کی ان کارروائیوں کا جائزہ لے گا۔ وفد کو جماعۃ الدعوۃ کے مرکز مریدکے کا بھی دورہ کرایا جائے گا جس کا انتظام پنجاب حکومت نے سنبھال رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کے وفد کو آپ امریکا کی مانیٹرنگ ٹیم بھی کہہ سکتے ہیں۔ ممکن ہے ’’نیک چلنی‘‘ کی اس ضمانت کے بعد پاکستان کی امریکی امداد بحال کردی جائے۔
ہمارے اخبار نویس دوستوں کا کہنا ہے کہ امریکا نے اسامہ بن لادن کے بعد اب حافظ سعید کو نشانے پر رکھ لیا ہے، وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ حافظ صاحب کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کا اصل جرم جہاد کے نظریے کو عام کرنا ہے، وہ مقبوضہ کشمیر میں، فلسطین میں، لیبیا میں، عراق میں، شام میں، افغانستان میں جہاں جہاں بھی مسلمانوں کو باطل قوتوں کا سامنا ہے جہاد کے حامی ہیں اور امریکا اسی جہاد کو کچلنا چاہتا ہے۔ امریکا نے حافظ سعید کے سر کی قیمت بھی لگا رکھی ہے۔ حافظ صاحب نہ رہے تو بھی اسلام کا نظریہ جہاد تا قیامت روشن رہے گا اور امریکا کی پریشانی بڑھتی ہی جائے گی، کم نہ ہوگی۔