بندر بانٹ

331

ناصر حسنی

یہ کیسی بدنصیبی ہے! یہ کیسا المیہ ہے کہ وطن عزیز کے پالیسی ساز اور منصوبہ ساز جب بھی کوئی پالیسی وضع کرتے ہیں یا کوئی منصوبہ بناتے ہیں تو اس کا مقصد قوم کو بنانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اہلِ بہاولپور کی اعلیٰ اور قومی خدمات کے اعتراف میں بہاولپور کی انتظامیہ نے گزشتہ سال شان بہاولپور کے عنوان سے ایک تقریب دل پزیر کا اہتمام کیا تھا جسے بہت سراہا گیا اس پزیرائی سے خوش ہو کر بہاولپور کی انتظامیہ نے شان بہاولپور کی تقریب کو بہاولپور ڈویژن تک پھیلا دیا ہے۔ امسال شان بہاولپور کی تقریب اسلامیہ یونیورسٹی کے مرکزی آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی۔ تقریب میں ضلع بھر کے ایم این ایز، ایم پی ایز اور بہاولپور کے افسران جلوہ افروز تھے۔ وفاقی وزیر تعلیم بلیغ الرحمان، کمشنر بہاولپور ثاقب ظفر، ڈپٹی کمشنر رانا محمد سلیم افضل، سابق جسٹس فرخ محمود، صوبائی وزیر امداد باہمی، ملک محمد اقبال چنڑ، امداد باہمی پر ہمیں یاد آیا کہ محمد اقبال چنڑ واحد رکن اسمبلی ہیں جنہیں اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر یہ منصب عطا کیا گیا ہے۔ بہاولپور کے نابینا شاعر ظہور آثم نے دو سال قبل امداد کے لیے درخواست چنڑ صاحب کے حضور پیش کی تھی مگر امداد تو کجا رسید تک نہ ملی۔ بھاگ دوڑ کی گئی تو یہ افسوس ناک بلکہ شرم ناک حقیقت سامنے آئی کہ امداد کا دارومدار امداد باہمی کے فارمولے پر ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب جو خود کو خادم اعلیٰ کہلانے پر بضد ہیں ان کی جانب سے جو امدادی رقم مختص کی جاتی ہے وہ مسلم لیگ نواز گروپ کے کارکنوں کے لیے مختص ہوتی ہے۔ یہی حال ملازمتوں کا ہے۔ ظہور آثم کے بیٹے کی ملازمت کے سلسلے میں ہم وفاقی وزیر تعلیم بلیغ الرحمان کے دربار عام میں پیش ہوئے اور یہ عرض کی کہ ظہور آثم بہاولپور کا خوش بیان اور خوش فکر شاعر ہے جو چند برس قبل بینائی سے محروم ہو کر ذریعہ معاش سے بھی محروم ہوچکا ہے اس کے بیٹے کے لیے قائد اعظم میڈیکل کالج میں ملازمت کے لیے درخواست دی ہے اس سلسلے میں معلومات کی گئیں تو بتایا گیا کہ بلیغ الرحمان سے فون کرادو کام ہوجائے گا۔ موصوف نے جواب دیا کہ میرے کوٹے میں ایک سیٹ آئی تھی جس کے لیے میں سفارش کرچکا ہوں، ہم نے گزارش کی کہ آپ ایک آسامی کے لیے پورے ضلع کو ذلیل و خوار کرتے ہیں اس رسوا کن کوٹے کو ختم کیوں نہیں کرادیتے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف آپ کی بات کو بہت اہمیت دیتے ہیں اگر آپ کوٹا سسٹم کی بندربانٹ کو ختم کرادیں تو آپ کا یہ احسان تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ موصوف نے ملازمت کا وعدہ کرکے ہم پر احسان عظیم فرمایا مگر ہم ابھی تک یہ احسان عظیم ظہور آثم تک منتقل نہیں کرسکے کیوں کہ ہمارے تعلقات ایسے لوگوں سے نہیں ہیں جو ایسے معاملات احسن طریقے سے سرانجام دینے میں مہارت رکھتے ہیں۔
شان بہاولپور کی تقریب میں غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل 38 افراد کو ایوارڈ دیے گئے، ادب اور شاعری کے حوالے سے خورشید ناظر، تابش الوریٰ، مسرت کلانچوی اور سلیم شہزاد کو ستارہ بہاولپور کا ایوارڈ دیا گیا۔ سلیم شہزاد کا تعلق بہاولنگر سے ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ اہل بہاولپور کو کسی بہاولنگری کا ستارہ بہاولپور کا اعزاز ملنا خوش گوار تجربہ ہرگز! ہرگز نہیں ہوگا۔ حب الوطنی کا اولین تقاضا اپنے شہر سے محبت، بے انتہا محبت ہے سو، کسی بہاولنگری کا شان بہاولپور ہونا باعث فخر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے شان بہاولپور کی تقریب کو بہاولپور تک ہی محصور رکھنا مناسب ہوگا۔ بہاولنگر اور رحیم یار خان کے اہل قلم شان بہاولپور کہلانا پسند نہیں کرسکتے۔ بہاولنگر اور رحیم یار خان کی انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ شان بہاولنگر جیسی تقریبات کا اہتمام کریں۔
شان بہاولپور کی تقریب ہر اعتبار سے ایک خوب صورت اور شاندار تقریب تھی مگر طویل ہونے کے باعث بوریت کا شکار ہوگئی، ساڑھے دس بجے کے بعد حاضرین گھروں کا رخ کرنے لگے اور جب گارڈوں نے روکنے کی کوشش کی تو کہا گیا، عجیب لوگ ہو پہلے اندر آنے نہیں دے رہے تھے اب باہر جانے نہیں دے رہے ہو۔ سابق جسٹس فرخ محمود بہت نیک نام وکیل اور منصف رہے ہیں۔ ہلال بہاولپور کہلانے کے مستحق ہیں ان کی خدمات کے صلے میں ہلال بہاولپور کا ایوارڈ دیا گیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال پرنسپل میڈیکل کالج بہاولپور ہیں، صاحب دیوان شاعر ہیں مگر طب کے دیوانے ہیں سو، انہیں طب کے حوالے سے ہلال بہاولپور کا ایوارڈ دیا گیا۔ ہم اپنے کالم میں تمام انعام یافتہ افراد کا ذکر نہیں کرسکتے سو، ان سے معذرت خواہ ہیں البتہ خورشید ناظر کا یہ گلہ قابل ذکر ہے کہ انہوں نے شعری ادب میں بہت کام کیا ہے اور انہیں ایوارڈ شاعری کے حوالے سے ملنا چاہیے تھا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ غیر منقوط نعت اور حمد کی کئی کتب لکھ کر انہوں نے قابل فخر کام کیا ہے مگر ایوارڈ ایک ایسی کتاب پر دیا گیا جو حج کی سعادت کے بعد لکھی تھی، خورشید ناظر کی حیرت بجا تھی کہ ابھی تک سفرنامے کو ادب کا حصہ ہی تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔