شاہنواز فاروقی
کنویں کے مینڈکوں کے لیے سمندر کیا تالاب کا خیال بھی جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ کنویں کے مینڈک کنویں ہی کو پوری کائنات سمجھتے ہیں۔ کنویں کا دائرہ ہی کیا ہوتا ہے؟ ایک چھلانگ ماری اور کنارہ آگیا۔ اس کنارے سے دوسرے کنارے تک کا فاصلہ بھی صرف ایک چھلانگ کے برابر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سمندر میں کنارے کا تصور محال ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ تالاب میں بھی کنارے تک پہنچنے کے لیے کدو کاوش کرنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کنویں کے مینڈکوں اور سمندر کی مخلوقات میں کوئی قدر مشترک نہیں ہوسکتی۔ مگر ان باتوں کا مفہوم کیا ہے؟
سلیم صافی ملک کے معروف صحافی ہیں۔ انہوں نے 3 جنوری 2018ء کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں ’’اُمت پرستی‘‘ کا مذاق اُڑایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ فلسطین، برما، یمن، افغانستان اور شام کے مسائل اہم سہی مگر پہلے ہمیں اپنے گھر کے مسائل حل کرنے چاہئیں۔ انہوں نے لکھا کہ بلاشبہ حضور اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں مگر حضور اکرمؐ نے یہ بھی تو فرمایا ہے کہ تم سے پہلے اپنے گھر اور اپنے دائرہ کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ انہوں نے لکھا کہ کچھ لوگ یا جماعتیں اس انتظار میں رہتی ہیں کہ کہیں مسلمانوں کے حوالے سے کوئی مسئلہ پیدا ہو اور وہ اس پر اپنی ’’سیاسی دکان‘‘ چمکائیں۔ سلیم صافی کے بقول ایسا کرنے والے لوگ پاکستان کے دشمنوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور جماعت اسلامی کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ بعض عرب ممالک تو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں اور پاکستان کے پاسپورٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے لیے نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ پاکستانی اتنے ’’احمق‘‘ ہیں۔
اُمت کا تصور جماعت اسلامی کی ایجاد نہیں۔ امت کا تصور قرآن کا تصور ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کو امتِ وسط کہا ہے۔ امت کا تصور رسول اکرمؐ کا تصور ہے۔ اس لیے کہ آپؐ اپنی پوری حیاتِ طیبہ میں امت کے تصور پر اصرار کرتے رہے۔ آپؐ نے امت کے لیے دعائیں کی ہیں۔ امت کے لیے گریہ وزاری کی ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کا ’’قصور‘‘ صرف یہ ہے کہ وہ باقی جماعتوں کی طرح امت کے تصور کو بھول کر آگے نہیں بڑھی۔ مگر سلیم صافی کی جرأت تو دیکھیں کہ وہ امت کے تصور کے سلسلے میں نہ قرآن کی تعلیمات کو دیکھ رہے ہیں، نہ سیرتِ طیبہ پر نظر فرما رہے ہیں۔ قرآن مجید صرف مسلمانوں کو امت قرار دے کر نہیں رہ جاتا بلکہ وہ مسلمانوں سے کہتا ہے کہ مظلوم بھائیوں کے لیے جنگ کرنے پر مجبور ہوجاؤ تو جنگ کرو، اُن کی مدد کرو۔ مگر سلیم صافی مسلمانوں کے لیے جنگ کرنے کے بجائے امت کے لیے جلسہ، جلوس کرنے کو بھی باعثِ شرم بات بنائے دے رہے ہیں۔ بلاشبہ گھر کے مسائل حل کرنا بھی ضروری ہے، مگر امت کے تصور پر توجہ مرکوز کرنا بھی ناگزیر ہے۔ اس لیے کہ یہ ہمارے دین کا تقاضا ہے۔ اتفاق سے اس سلسلے میں جماعت اسلامی کی تاریخ شاندار ہے۔ ملک میں زلزلہ آئے یا سیلاب، جماعت اسلامی اپنے مقامی بھائیوں کی مدد کے لیے نکل کھڑی ہوتی ہے۔ بلاشبہ جماعت اسلامی کے مالی اور انسانی وسائل محدود ہیں مگر اصل مسئلہ تو نیت، اخلاص اور عملی اقدامات کا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کی 70 سالہ تاریخ سے ایک مثال بھی ایسی نہیں لائی جاسکتی جس سے ثابت ہو کہ ملک میں کوئی مشکل پیدا ہوئی اور جماعت اسلامی نے اس مشکل کے حوالے سے کوئی کردار ادا نہ کیا۔ قیام پاکستان کے وقت جماعت اسلامی کی عمر چند برس تھی مگر جماعت نے مہاجروں کی دیکھ بھال میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ملک میں کوئی ہنگامی صورتِ حال نہ بھی ہو تو جماعت اسلامی کا شعبہ خدمتِ خلق فعال رہتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اقتدار میں آئے بغیر قوم کی خدمت کی نایاب مثال ہے۔ اس کے برعکس سلیم صافی کی تمنا کے عین مطابق مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، اے این پی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم جو امت کے غم میں رتی برابر بھی مبتلا نہیں، ان کا ریکارڈ یہ ہے کہ وہ نہ زلزلے میں قوم کی خدمت کرتی ہیں، نہ سیلاب میں اپنے لوگوں کے کام آتی ہیں۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا تو کوئی باقاعدہ شعبہ خدمتِ خلق ہی نہیں ہے۔ بلاشبہ عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال بنایا ہے۔ انہوں نے ایک یونیورسٹی بھی بنائی ہے۔ مگر یہ عمران خان کی انفرادی خدمات ہیں۔ ان کی جماعت بحیثیت ایک جماعت کے قوم کی کوئی خدمت نہیں کررہی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امت کے غم میں گھلنے والی پارٹی یعنی جماعت اسلامی مقامی سطح پر خدمات کے حوالے سے ان تمام جماعتوں پر فوقیت رکھتی ہے جو امت کے کسی بھی مسئلے پر کچھ نہیں کرتیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ امت کے تصور سے وابستگی کی برکت ہے کہ جماعت اسلامی مقامی سطح پر مسلمانوں اور تمام انسانوں کی خدمت کررہی ہے۔ جماعت اسلامی امت کے تصور کو فراموش کرے گی تو وہ شاید مقامی سطح پر بھی خدمت کے قابل نہ رہے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ چوں کہ باقی جماعتیں امت کے تصور سے کٹی ہوئی ہیں اس لیے ان پر نحوست کا سایہ ہے، اور اس نحوست کی وجہ سے وہ مقامی سطح پر بھی عوام کی خدمت کے لیے کچھ نہیں کرتیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی ’’مقامیت‘‘ پر اصرار کرتا ہے تو سلیم صافی جیسے لوگ اس سے کہتے ہیں کہ یہ عالمگیریت یا Globalization کا زمانہ ہے، دنیا ایک گاؤں بن گئی ہے، چناں چہ ہمیں بھی عالمگیر سوچ اختیار کرنی چاہیے۔ لیکن جو امت چودہ سو سال سے عالمگیر سوچ کی حامل ہے اس پر طنز کیا جارہا ہے کہ تم امت امت کیوں کرتی ہو۔ تم ’’مقامیت‘‘ پر اصرار کیوں نہیں کرتی ہو؟ مغرب کی تقلید کرنی ہو تو ہم بین الاقوامی ہیں، عالمگیر ہیں۔ لیکن اگر ہمیں اسلام کے تقاضوں پر عمل کرنا ہو تو ہمیں مقامی ہونا چاہیے۔ مگر کتنا ’’مقامی‘‘؟
اگر سلیم صافی کے لیے امت کا تصور ناقابلِ برداشت ہے تو ایک ’’قوم‘‘ کے تصور میں کون سے ہیرے موتی جڑے ہوئے ہیں؟ ہم کیوں ناں اپنے صوبے اور اپنی لسانیت پر اصرار کریں؟ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ بے شمار لوگ یہی کام کررہے ہیں۔ وہ ’’پاکستانیت‘‘ کو بھول گئے ہیں اور ان کے لیے اپنی صوبائی یا لسانی شناخت اہم ہوگئی ہے۔ لیکن یہ ’’مقامیت‘‘ کی آخری منزل نہیں۔ صوبائیت اور لسانیت سے کم تر سطح ذاتوں اور برادریوں کی ہے۔ ایم کیو ایم کو دیکھا جائے تو اس کے لیے صرف ’’کراچی‘‘ بھی کافی ہے۔ میاں نوازشریف اور آصف زرداری کو دیکھا جائے تو وہ ’’خاندانوں‘‘ کی سیاست کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان پر اعتراض کیا جائے تو کس طرح؟ اس لیے کہ ان کی ’’مقامیت‘‘ یہی خاندان ہیں! تجزیہ کیا جائے تو بہت سے لوگ اپنے خاندانوں سے بھی خوش نہیں ہوتے۔ ان کے لیے اپنی ’’ذات‘‘ ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ یہ ذات ہی ان لوگوں کی ’’مقامیت‘‘ ہوتی ہے۔ ان کا ہر مفاد اسی ’’مقامیت‘‘ سے متعلق ہوتا ہے۔ ان کا ہر خیال اور ان کا ہر عمل اپنی ذات سے منسلک ہوتا ہے۔ سلیم صافی خوش نہ ہوں، مغرب نے ذات یا شخصیت کے بھی ٹکڑے کردیے ہیں۔ چناں چہ مغرب میں کوئی اپنی جنس کا اسیر ہے، کوئی اپنی معاشیات کا، اور کوئی اپنی عمرانیات کا۔ سلیم صافی امت سے بھاگیں گے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ مگر کنویں کے مینڈکوں کو اتنی گہری باتوں سے کیا کام؟ ان کے لیے تو کنویں کی بھاگ دوڑ ہی قاموس یا Encyclopedia ہے۔ اسے پڑھ لیں تو ساری دنیا کا علم سمیٹ لیں۔
سلیم صافی کا خیال ہے کہ جو لوگ امت کی بات کرتے ہیں وہ اپنی سیاسی دکان چمکاتے ہیں۔ لیکن وہ کوئی ایک مثال ایسی دیں جس سے ثابت ہو کہ کسی جماعت بالخصوص جماعت اسلامی کو کبھی امت امت کرنے کا کوئی ’’سیاسی فائدہ‘‘ ہوا ہو؟ سیاسی فائدہ تو پنجابیت، مہاجریت، سندھیت، پشتونیت، بلوچیت، شیعت، سنیت، بریلویت، دیوبندیت اور اہلِ حدیثیت بگھارنے میں ہے۔ مگر یہ تمام تصورات امت کے تصور کی تکذیب اور امت کے تصور کی تردید ہیں۔ چناں چہ جو لوگ امت امت کرتے ہیں وہ اصولی اعتبار سے کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں کرتے۔ وہ صرف اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کے تقاضوں کو نبھاتے ہیں۔ مگر سلیم صافی پر دین، تہذیب اور تاریخ کے تقاضے اتنا بڑا بوجھ بن گئے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں قرآن و حدیث اور سیرتِ طیبہؐ کو بھی اعلان کے بغیر چیلنج کررہے ہیں۔
سلیم صافی نے اسرائیل کے سلسلے میں عربوں کی مثال خوب دی ہے۔ عرب ممالک کے حکمرانوں کو دیکھا جائے تو وہ ننگِ دین بھی ہیں، ننگِ تہذیب بھی اور ننگِ تاریخ بھی۔ اصول ہے کہ آدمی مثال بہترین کی دیتا ہے مگر سلیم صافی اتنے ’’صاحبِ علم‘‘ اور ’’صاحبِ بصیرت‘‘ ہیں کہ وہ مسلمانوں کے بدترین حصے کی نظیر پیش کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امت کے تصور کو جس طرح برصغیر کے مسلمانوں نے سمجھا ہے کسی اور علاقے کے مسلمان امت کے تصور کو اس طرح نہیں سمجھ سکے۔ یہ امت کا تصور تھا جس کے تحت برصغیر کے مسلمانوں نے ترکی کے لیے تحریکِ خلافت چلائی۔ یہ امت کا تصور تھا جس کے لیے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے تحریکِ پاکستان میں تن، من، دھن سے شرکت کی۔ اقلیتی صوبوں کے مسلمان سلیم صافی اور ان جیسوں کی طرح کنویں کے مینڈک اور ’’مقامیت‘‘ پر اصرار کرنے والے ہوتے تو پاکستان ایک خواب ہی رہتا۔ اس لیے کہ اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے مقامی مسائل تو ’’کچھ اور‘‘ ہی تھے۔