متحدہ اپوزیشن، اتحاد کا فقدان

448

حزب اختلاف کی کئی چھوٹی بڑی جماعتوں نے گزشتہ بدھ کو لاہور میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اسے متحدہ اپوزیشن کا اجتماع کہا گیا جس میں اتحاد کا فقدان تھا۔ کئی دن سے شور مچ رہا تھا کہ مال روڈ پر ایسا اجتماع ہوگا کہ حکمرانوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے لیکن غیر جانبدار مبصرین اور شاہدین اس پر متفق ہیں کہ یہ شو ناکام رہا۔ مختلف ذرائع کے مطابق شرکا کی تعداد زیادہ سے زیادہ 14 ہزار تھی۔ کرسیاں بھی 14 ہزار لگائی گئی تھیں لیکن ٹی وی چینلز پر براہ راست دکھائے گئے مناظر میں بہت سی کرسیاں خالی نظر آئیں۔ ان میں کچھ جماعتیں ایسی ہیں جو تن تنہا اس سے بڑا اجتماع کرتی رہی ہیں۔ اس فلاپ شو کا فائدہ حکمران مسلم لیگ کو پہنچے گا۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے تو یہ پنجاب فتح کرنے کی کوشش تھی چنانچہ لاہور میں یہ آصف علی زرداری کا جلسہ عام سے پہلا خطاب تھا۔ مقررین میں سے کسی نے بھی ٹھوس لائحہ عمل نہیں دیا البتہ حکومت گرانے کی دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ اتحاد کا یہ عالم تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک صدر نشین آصف علی زرداری اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک ساتھ بیٹھنا بھی گوارا نہیں کیا جب کہ کینیڈا سے کبھی کبھی پاکستان آنے والے بزعم خود شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ آصف زرداری اور عمران خان کو ایک ساتھ بٹھاکر دکھائیں گے۔ لیکن ہوا یہ کہ دونوں نے دوسرے کی موجودگی میں خطاب تک نہیں کیا۔ تقریروں میں بڑے بڑے دعوؤں کے سوا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ان دعوؤں میں آصف علی زرداری اور طاہر القادری تو کمال کو پہنچ گئے۔ سابق صدر زرداری نے فرمایا کہ ’’میں جب چاہوں حکومت کو نکال سکتا ہوں۔‘‘ زرداری صاحب ایسا کب چاہیں گے؟ ان کی ساری تگ و دو تو مسلم لیگ ن کی حکومت ختم کرنے کے لیے ہے اور بار بار کہہ چکے ہیں کہ اگلا وزیراعظم ان کا بیٹا بلاول ہوگا۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف دونوں ہی کی کوشش ہے کہ پنجاب فتح کیا جائے۔ تحریک انصاف گزشتہ دنوں چکوال میں بڑے واضح فرق کے ساتھ ضمنی انتخاب ہارچکی ہے اور گزشتہ بدھ کے جلسے میں زرداری کی موجودگی کے باوجود پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی تعداد مایوس کن تھی اور وہ زرداری کے جاتے ہی خود بھی چلے گئے۔ زبان سے شعلے برسانے والے علامہ طاہر القادری آصف زرداری سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے اپنے جانبازوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’اگر کہو تو تاریخ دے دوں، اگلی اتوار کو رائے ونڈ کی اینٹ سے اینٹ بجادوگے، ابھی چلوگے؟‘‘ اور شرکا نے بھی نعرے لگاکر آمادگی ظاہر کردی تاہم طاہر القادری نے تاریخ نہیں دی، اتوار بھی کچھ دور نہیں ہے۔ طاہر القادری نے یہ بھی فرمایا کہ ’’اگر مال روڈ کے جلسے کے شرکا جاتی امرا کی طرف منہ کرکے تھوک ہی دیں تو ان (حکمرانوں) کے محلات اس میں بہہ جائیں گے۔ اگر کارکنوں کو کہہ دوں تو تمہارے بدن کے کپڑے نوچ ڈالیں گے، بوٹی بوٹی کردیں گے‘‘ اب یہ انداز تخاطب عام ہوچکا ہے جس میں سنجیدگی عنقا ہے۔ غنیمت ہے کہ جلسے میں خادم حسین رضوی شریک نہیں تھے۔ پھر اس پر یہ کہنا کہ ہمارا شیوہ توڑ پھوڑ ہے نہ جلاؤ گھیراؤ۔ جلسے میں شیخ رشید بھی موجود تھے جو اسلام آباد میں عمران خان کے دھرنے میں پورے ملک میں آگ لگانے کے دعوے کرچکے ہیں۔ لیکن اس بار انہوں نے ’’ایسی جمہوریت‘‘ پر لعنت بھیجتے ہوئے قومی اسمبلی سے استعفا دینے کا اعلان کردیا جس سے وہ ساڑھے چار سال تک استفادہ کرتے رہے اور قومی اسمبلی کی موجودہ مدت ختم ہونے سے چند ماہ پہلے الگ ہوگئے۔ اس تمام عرصے میں وہ اس ’’لعنتی جمہوریت‘‘ کا حصہ بنے رہے۔ اس پر شیخ رشید کے سیاسی گرو عمران خان بھی جوش میں آگئے اور انہوں نے اس پارلیمنٹ پر لعنت بھیج دی جس کا وہ اب بھی ایک حصہ ہیں فرمایا کہ وہ بھی شیخ رشید کی پیروی کرنے پر غور کررہے ہیں۔ عمران خان پہلے بھی پارلیمنٹ پر لعنت بھیج کر گھر بیٹھ رہے تھے اور مہینوں بعد واپس آئے تو خواجہ آصف نے ’’شرم کرو، حیا کرو‘‘ کے نعرے لگائے تھے۔ پارلیمنٹ اور جمہوریت پر ان لوگوں کا لعنت بھیجنا عجب تماشا ہے جو خود اس کا حصہ تھے اور ہیں۔ شیخ رشید نے ابھی تو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان ہی کیا ہے، استعفا منظور ہونے کا ایک طریقہ ہے اور جب تک یہ عمل پورا نہ ہو شیخ رشید لعنت کا حصہ ہیں۔ ان کے اس اعلان پر ن لیگ کا یہ تبصرہ بجا ہے کہ استعفا مانگنے والوں کو استعفے دینے پڑگئے۔ عمران خان کا کہناہے کہ انہوں نے پارلیمنٹ کے لیے بہت نرم لفظ استعمال کیا ہے ورنہ ’’جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ‘‘۔ عمران خان نے فرمایا کہ ’’سڑکوں پر آنے کی مشق تو ہو ہی گئی ہے، اب پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔‘‘ ایسا لگتا ہے کہ سب کو ایوان اقتدار میں پہنچنے کی بہت جلدی ہے۔ لیکن جلدی کا کام اچھا نہیں ہوتا۔