سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن 13سے برس غیر فعال عوام اتائی ڈاکٹروں کے رحمو کرم پر 

764

کراچی (رپورٹ: قاضی عمران احمد) سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن 3 سال سے غیر فعال، بجٹ منظور ہونے کے باوجود بھرتیاں تاحال نہیں کی جا سکیں، اندرون سندھ اتائی ڈاکٹروں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے جب کہ شہر کراچی میں 80 ہزار سے تجاوز کرگئی، ملک بھر میں 6 لاکھ سے زائد اتائی ڈاکٹر کام کر رہے ہیں جبکہ ڈاکٹروں کی تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا دعویٰ ہے کہ صرف سندھ میں ہی 2 لاکھ سے زائد اتائی ڈاکٹرز موجود ہیں۔ شہر قائد میں اتائیوں کی بھر مار ہے، گلی محلوں میں زچہ و بچہ سینٹرز قائم کر لیے ہیں، ڈرگ انسپکٹروں کی مبینہ ملی بھگت سے مختلف امراض کی تشخیص، علاج معالجے اور آپریشن کے نام پر لوٹ مار اور شہریوں میں خطرناک بیماریاں بانٹنے کا سلسلہ خطرناک حد تک بڑھنے لگا ہے۔ اتائیوں کے خلاف تحلیل شدہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے جبکہ سابق پی ایم ڈی سی نے ایک ہی برس میں باپ، داماد اور 2 بیٹوں کی ایم ڈی کی ڈگری کی تصدیق کر دی۔ ذرائع کے مطابق اتائیوں میں بڑی تعداد میں محکمہ صحت میں ملازمت کرنے والی نرسوں، ایل ایچ ویز، او ٹی ٹیکنیشنز، وارڈ بوائے، نان ٹیکنیکل اسٹاف اور نیشنل پروگرام برائے خاندانی منصوبہ بندی کی درجہ چہارم کی اہلکار اور دائیاں وغیرہ شامل ہیں۔ یہ اتائی ڈلیوری کیسز کے علاوہ اسقاط حمل کے لیے بھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں 80 ہزار سے زائد اتائی ڈاکٹر مختلف علاقوں او ر کچی بستیوں میں کام کر رہے ہیں۔ انسانی جانوں سے کھیلنے میں مصروف ہیں اور انہوں نے کلینکس، ڈسپنسریز، زچہ بچہ سینٹرز اور اسپتال قائم کر رکھے ہیں جبکہ محکمہ صحت کی نااہلی کی وجہ سے لوٹ مار اور شہریوں میں خطرناک بیماریاں بانٹنے کا سلسلہ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ قانون کے مطابق رجسٹرڈ معالجین کے علاوہ کوئی بھی حکیم یا نیم حکیم، کمپاؤنڈر اور نرس ’’ڈاکٹر‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کر سکتے اور اینٹی بائیوٹکس سمیت خطرناک ادویات کا نسخہ نہیں دے سکتے جبکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو ایک سال قید اور جرمانے کی سزا کا قانون بھی موجود ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان اتائی ڈاکٹرز کا طریقہ کار یہ ہے کہ یہ کسی ڈاکٹر سے رابطہ کر کے ’’ماہانہ‘‘ رقم طے کر لیتے ہیں اور اپنے نام نہاد کلینکوں، زچہ بچہ سینٹرز اور میٹرنٹی ہومز وغیرہ پر اس ڈاکٹر کا لائسنس اور اسناد آویزاں کر کے ان کا نام استعمال کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق قوانین موجود ہونے کے باوجود حکومت اتائی ڈاکٹروں کے علاوہ ان ڈاکٹروں کے خلاف بھی کارروائی کرنے سے گریزاں ہے کہ جن کا لائسنس، نام اور اسناد یہ اتائی ڈاکٹرز استعمال کر کے عوام کی قیمتی جانوں کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ ان اتائیوں کی ڈگریاں یا تو جعلی ہیں یا سرے سے موجود ہی نہیں، اسی طرح کے لوگوں نے ڈاکٹر کے شعبے کو بدنام کر رکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان اتائی ڈاکٹرز کے پاس مریضوں کی فراوانی ہے۔ ذرائع کے مطابق سابق پی ایم ڈی سی ان اتائیوں کے خلاف اپنا مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے اور کچھ عرصہ قبل ہی ایک ہی خاندان کے 4 افراد (باپ، 2 بیٹوں اور داماد) نے ایک ہی برس ایم ڈی (میڈیکل ڈپلوما جو عموماً افغانستان، روس اور مصر سے حاصل کیا جاتا ہے) کی ڈگری لی اور ایک ہی برس میں ڈاکٹر بن گئے جس کی پی ایم ڈی سی نے بغیر کسی تحقیق کے تصدیق بھی کر دی۔ اس سے قبل کراچی کے ایک اتائی ڈاکٹر جن کے پاس کوئی ڈگری نہیں ہے، ان کی ڈگری کو بھی 2014-15ء میں پی ایم ڈی سی نے تسلیم کیا، جب متعلقہ ادارے سے اسناد نکلوائی گئیں تو وہ ڈگریاں ان کے ہم نام ڈاکٹر کے نام پر رجسٹرڈ تھیں جو عرصہ دراز سے بیرون ملک مقیم تھے لیکن ان ڈاکٹر کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ذرائع نے بتایا کہ سندھ حکومت کی جانب سے شعبہ ہیلتھ میں بے قاعدگیوں کی روک تھام اور اتائیوں کے خلاف کارروائی کیلیے اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا تھا جو 2014ء میں منظور ہو گیا تھا اور سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے نام سے ایک کمیشن بھی قائم کر دیا گیا تھا لیکن 3 سال گزرنے کے باوجود یہ کمیشن غیر فعال ہے۔ ذرائع کے مطابق سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کا بجٹ تو منظور کر لیا گیا ہے مگر بھرتیوں کا عمل تا حال شروع نہیں کیا جا سکا ہے۔