مقدس عمارات!

224

ناصر حسنی

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کی ماتحت عدالتوں کی کارکردگی کے جائزے کے لیے 36 اضلاع کے سیشن جج صاحبان سے نئے دائر ہونے والے مقدمات، نمٹائے گئے مقدمات اور زیر التوا مقدمات کی تفصیلات طلب کی ہیں۔
یادش بخیر! اس طرح کے احکامات وقتاً فوقتاً جاری ہوتے رہتے ہیں مگر ان کی حیثیت ’’لنگر گرنٹ‘‘ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ کسی ستم ظریف عدلیہ زدہ کا یہ قول خاصا معتبر لگتا ہے کہ ایسے احکامات پر مہر لگی ہوتی ہے نہ فرمان جاری کرنے والے کے دستخط ہوتے ہیں اس لیے ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ قابل غور امر یہ ہے کہ پٹواری جب کسی کی جائداد کسی دوسرے کے نام منتقل کرتا ہے تو وہ دستخط نہیں کرتا کہ جعلی دستاویزات پر دستخط نہیں کیے جاتے اور جہاں تک مہر کا تعلق ہے تو پٹواری جیسے ادنیٰ ملازم کو مہر دینا بیورو کریٹ کی کھلی توہین ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا لاہور ہائی کورٹ ماتحت عدالتوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں؟ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ماتحت عدالتوں کی کارکردگی سے آگاہ ہونا کیوں ضروری سمجھا گیا ہے؟ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ماتحت عدالتیں ہوں یا بالائی عدالتیں کوئی بھی اس قابل نہیں کہ ان کی کارگزاری پر گفتگو کی جائے، سبھی کا مقصد وقت گزارنا ہے، انصاف کی فراہمی ان کے لیے بے معنی اور لاحاصل ہے اور نہ ہی ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔
سول کورٹ، سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ سبھی پیشی پیشی کا دل آزار کھیل کھیل رہی ہیں اگر ان کی کارکردگی کا دیانت داری سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ ماتحت عدالتوں کی نسبت ہائی کورٹ کی کارکردگی صفر ہے۔ کیوں کہ ہائی کورٹ کی بلند و بالا مسندوں پر براجمان جسٹس
صاحبان خود کو گدی نشیں سمجھتے ہیں، گدی نشیں اپنے مریدوں پر تھپڑ برساتا ہے اور ہائی کورٹ کی مسند پر جلوہ گر لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برساتا ہے۔ پیشی در پیشی کا مکروہ کھیل کھیلتا ہے اور جب کچھ زیادہ ہی خوش گوار موڈ میں ہوتا ہے تو پیشی کینسل کردیتا ہے۔ اصولی طور پر ہائی کورٹ کا جائزہ انتہائی ضروری ہے۔ سول کورٹ عدم ثبوت کی بنیاد پر جن مقدمات کو خارج کردیتی ہے، سیشن کورٹ ان کی سماعت پر سائلین اور عدالت کا وقت اور سرمایہ کیوں ضائع کرتی ہے۔ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ جب سول کورٹ اور سیشن کورٹ کسی مقدمے کو عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج کرتی ہے تو ہائی کورٹ جعل سازوں کو اپنی پناہ میں کیوں لیتی ہے؟ سہولت کاری کا فریضہ کیوں سرانجام دیتی ہے؟۔ چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب، عدل پرور! میاں ثاقب نثار کے فرمان پر قربان ہونے کو جی چاہتا ہے۔ فرماتے ہیں چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت گاؤں کے ’’بابا‘‘ جیسی ہوتی ہے، ’’بابا‘‘ جو کہہ دے وہ پتھر کی لکیر ہوتا ہے۔ گاؤں کا کوئی بندہ خواہ وہ نمبردار ہی کیوں نہ ہو، کتنا ہی خود سر اور سرکش کیوں نہ ہو۔ ’’بابا‘‘ کی بات سے اختلاف کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ واجب الاحترام! چیف صاحب! کے فرمان سے لگتا ہے کہ بابا جی کا واسطہ کسی بابا سے نہیں پڑا ہے۔ ’’بابا‘‘ حق کا پرستار ہوتا ہے اور شخصیت پرستی کو گناہ عظیم سمجھتا ہے۔ وہ کسی سیاسی مصلحت کا شکار بھی نہیں ہوتا، وہ جھوٹ کا شکاری ہوتا۔ اس کے نزدیک ایک اور ایک دو نہیں گیاہ ہوتے سو، وہ اپنی دونوں آنکھوں سے گیارہ آنکھوں کا کام لیتا ہے، خود فریبی اور سیاسی ضرورت سے بالاتر ہوتا ہے۔ کوئی مریم اس کی بالاتری کو چیلنج نہیں کرتی یوں بھی عدالتیں مقدس عمارات کی طرح ہوتی ہیں، وہاں مقدس کتابوں کی حکمرانی ہوتی ہے، ہندو گیتا پر اور عیسائی بائبل پر قسم اٹھاتے ہیں مگر ہماری عدالتیں قرآن حکیم کو خیر و برکت کے لیے الماریوں میں سجاتی ہیں۔