راؤ انوار کی پشت پر کون ہے ؟

717

ایس ایس پی ضلع ملیر راؤ انوار کا ایک اور کارنامہ سامنے آگیا ہے۔ راؤ انوار پولیس مقابلے کرنے اور کروانے میں خاص شہرت رکھتے ہیں اور ان کے اس فن میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ فلمیں بڑے شوق سے دیکھتے ہیں جن میں کوئی پولیس افسر تحقیق و تفتیش اور پکڑ دھکڑ سے بچنے کے لیے ملزموں کو گولیوں سے اڑا دینے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ راؤ انوار کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کا ہدف کوئی ملزم ہی ہو۔ راؤ انوار کے کئی مقابلے جعلی ثابت ہوچکے ہیں لیکن کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا جس سے لگتا ہے کہ ان کی پشت پر کوئی بڑی اور اہم شخصیت ہے۔ کئی مقابلے ایسے ہوئے ہیں جن میں ملزموں نے پولیس پر فائرنگ بھی کی اور بم بھی پھینکے لیکن پولیس اہلکاروں میں سے کسی کو خراش تک نہ آئی اور ملزمان مارے گئے۔ کیا اسے پولیس کی اعلیٰ درجے کی تربیت کا نتیجہ کہا جائے؟ تازہ ترین واقعہ راؤ انوار کی بکتر بند گاڑی پر خودکش حملہ تھا جس میں حملہ آور ہی مارے گئے۔ خودکش حملہ آور کا جسم سلامت رہا حالانکہ ایسے حملوں میں حملہ آور کا سر اڑ جاتا ہے اور اعضا بکھر جاتے ہیں۔ یہ پہلا خودکش حملہ آور تھا جس کا سر اس کے جسم سے الگ نہیں ہوا۔ راؤ انوار کے مطابق یہ بم دھماکا تھا چنانچہ بم ڈسپوزل اسکواڈ کو بلانا چاہیے تھا لیکن اسے نہیں بلایا گیا۔ اس واقعہ کی تفتیش اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ (ATS) یا سی ٹی ڈی کے سپرد کی جانی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا اور راؤ انوار کا عملہ ہی تحقیقات کررہا ہے۔ تاہم ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل کا معاملہ راؤ انوار کے گلے پڑتا نظر آرہا ہے۔ تمام ذرائع ابلاغ نے اس پولیس مقابلے کو نمایاں کیا ہے، کئی شہروں میں احتجاج بھی جاری ہے۔ چنانچہ اب اوپر سے نیچے تک سب نے نوٹس لے لیا۔ اس سے پہلے شاید سب سوئے پڑے تھے جس سے راؤ انوار کے حوصلے بڑھتے گئے۔ وہ جب کھارا در کا ایس ایچ او تھا تو ابراہیم ماچھی کا قتل بڑا مشہور ہوا تھا جس میں مظاہرین نے راؤ انوار کو اس کے تھانے میں بند کردیا تھا۔ اس سانحہ میں بڑا ظلم یہ ہوا تھا کہ ابراہیم کو قتل کرنے کے بعد جب اس کے گھر پر چھاپا مارا گیا تو اس کا 4 ماہ کا بچہ پولیس کے جیالوں کے پیروں تلے کچلا گیا اور راؤ انوار ترقی کرتا رہا۔ نقیب اللہ محسود کو 13 جنوری کو شاہ لطیف ٹاؤن میں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا جبکہ اس کے اہلخانہ کا بیان ہے کہ اسے 3 جنوری کو اٹھایا گیا تھا اور 10 دن بعد دیگر 3 افراد کے ساتھ مبینہ پولیس مقابلے میں ماردیا گیا۔ نقیب اللہ محسود کے قتل پر جنوبی وزیرستان میں ایک روزہ سوگ منایا گیا اور ٹانک میں محسود قبائل نے شاہراہ بند کردی۔ بنوں اور پشاور میں طلبہ نے احتجاج کیا اور کراچی میں بھی سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کے کارکن سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ صورتحال دیکھ کر پیپلزپارٹی کے صدر نشیں بلاول زرداری نے بھی نوٹس لے لیا اور وزیر داخلہ سندھ بھی متحرک ہوگئے۔ تین رکنی تحقیقاتی ٹیم بن گئی اور جمعہ کو راؤ انوار کی طلبی ہوگئی۔ راؤ انوار نے نقیب اللہ محسود پر متعدد الزامات عاید کیے ہیں اور اسے کراچی میں بے نظیر بھٹو پر حملے میں بھی ملوث کردیا ہے تاکہ بلاول پر جذباتی دباؤ ڈالا جاسکے۔ راؤ انوار نے نقیب اللہ پر دہشت گردی کے جتنے الزامات لگائے ہیں ان کے ثبوت بھی راؤ انوار سے طلب کیے جائیں۔ اس معاملے کا فیصلہ نہ ہوا تو راؤ انوار کے حوصلے مزید بڑھیں گے۔ یہ سراغ لگانا بھی ضروری ہے کہ راؤ انوار کس کے کھونٹے پر اچھل رہے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں پولیس مقابلے میں ماردیتے ہیں۔ لوگوں کو اٹھا کر غائب کردینے اور بعد میں کسی مقابلے میں ہلاک کردینے کی وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں اور اس معاملے میں راؤ انوار اکیلے نہیں ہیں بلکہ ایجنسیوں نے یہ معمول بنالیا ہے۔ اگر مقابلے میں نہ مارا جائے تو لاپتا افراد کی لاش کہیں سے مل جاتی ہے۔ چنانچہ جو افراد اٹھا لیے جاتے ہیں ان کے لواحقین ان کی زندگی کی دعائیں ہی کرتے رہتے ہیں کہ کیا پتا کب کس کی لاش کہیں سے دستیاب ہوجائے۔ پاکستان کے عوام پر ایجنسیوں کی گرفت سخت ہوتی جارہی ہے اور یہی ایجنسیاں ایک چاقو مار چھلاوے کو پکڑنے میں ناکام رہتی ہیں۔ راؤ انوار کے مذکورہ کارنامے میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے ایس ایچ او کو معطل کردیا گیا ہے لیکن جسے معطل کیا جانا چاہیے اس پر کوئی ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں کررہا۔