ردی کی ٹوکری

353

پاکستان کی سیاست میں ردی کی ٹوکری کی بڑی اہمیت ہے۔ اسے اکثر لوگ تاریخ کا کوڑے دان کہتے ہیں جہاں بڑے بڑے سیاسی پہلوان اور اپنے وقت کے بڑے کھلاڑی پڑے ہوئے ملے۔ تاریخ کے اس کوڑے دان میں آج کل سب سے اوپر جنرل پرویز مشرف پڑے نظر آرہے ہیں، الطاف حسین ان کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ بہت سوں کو تو لوگ بھول بھی چکے، کسی کے حکم پر کراچی بند اور کھل جاتا تھا، کسی کے حکم پر لیاری بند ہوتا تھا، کوئی ایسا بھی تھا کہ پنجاب پر حکمرانی کرتا تھا، شیر پنجاب تھا لیکن آج کل کوئی نہیں پوچھ رہا ہے، کوئی شیر پنجاب بھی تھا، وہ بھی تاریخ کے کوڑے دان میں ہی ہیں۔ لیکن وزیراعظم پاکستان جناب شاہد خاقان عباسی نے جو فرمایا ہے کہ نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلے ردی کی ٹوکری میں جائیں گے یہ بڑی بات ہے، بڑے حوصلے کا کام ہے۔ ایسی ردی کی ٹوکری لانا بھی بڑا کام ہے جس میں یہ فیصلے ڈالے جائیں گے۔ شاہد خاقان عباسی نے نامعلوم کسی زعم ہی یہ کہہ دیا کہ تمام فیصلے ردی کی ٹوکری میں ڈالے جائیں۔ کون ڈالے گا یہ فیصلے۔ انہیں تو معلوم ہوگا کہ پاکستانی سیاست کو نظریہ ضرورت دینے والے جج کو کوئی یاد نہیں رکھتا اس کا نام بھی تلاش کرنے کے لیے ردی کی ٹوکری ہی سے مدد لینی پڑتی ہے۔ بعض لوگ ناراض ہوجائیں گے لیکن یحییٰ، بھٹو، مجیب وغیرہ بھی اب ردی کی ٹوکری کا حصہ ہیں۔ یہ تاریخ بڑی ظالم ہوتی ہے۔ ایک اعتبار سے جنرل ضیا الحق بھی ردی کی ٹوکری ہی میں پڑے ہیں۔ ہم دوسروں کو تو کچھ نہیں کہتے لیکن چوں کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ بات کہی ہے تو انہیں ضرور اپنی سیاسی تاریخ اور اپنے بگ باس کو یاد رکھنا چاہیے۔ 17 اگست 1988ء کو جب جنرل ضیا الحق ایک حادثے کا شکار ہوئے تو ان کا جنازہ تاریخی تھا ایسا لگ رہا تھا کہ اب آنے والے برسوں میں وہ کوئی پیر بن جائیں گے مگر صرف ایک برسی بھرپور طریقے سے منائی گئی جس میں میاں نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور آج کے بہت سے سیاستدان آگے آگے تھے لیکن پھر شاید ان لوگوں کو پیر صاحب کی ضرورت نہیں رہی اور انہوں نے اپنے پیر کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ ضیا الحق کے بیٹے، جنرل اختر عبدالرحمن کے بیٹے دو دو مرتبہ حکومت میں رہے لیکن اپنے باپوں کے قاتلوں کو نہیں پکڑواسکے یہاں تک کہ مقدمات ردی کی ٹوکری میں ڈال دیے گئے۔
پاکستان میں پہلے وزیراعظم کے قتل کا کیس ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا۔ پاکستان کے پہلے آئین کے اصل مسودے کا کوئی پتا نہیں۔ مرتضیٰ اور بے نظیر بھٹو قتل کیس ردی کی ٹوکری میں ہے اور غدار وطن قرار پانے والے الطاف حسین کا مقدمہ بھی ردی کی ٹوکری کی نذر ہوگیا۔ کراچی کا ذکر آیا تو گزشتہ 35 برس میں جو کچھ ہوا وہ سب ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری دہشت گردوں اور بھتا خوروں کو تو عدالتوں میں تاریخیں مل رہی ہیں، کبھی پولیس کسی کا نام ملزموں میں ڈال دیتی ہے کبھی نکال دیتی ہے، لیکن 260 لوگ جو جان سے گئے ان کے گھر والے اب تک انصاف کو ترس رہے ہیں۔ انہیں تو معاوضہ بھی نہیں ملا۔ ایک اعتبار سے یہ مقدمہ بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے۔
جسٹس افتخار چودھری کی آمد پر 50 افراد کی ہلاکت اور کراچی بند کرنے کا معاملہ بھی اب رفتہ رفتہ ردی کی ٹوکری میں جارہا ہے۔ وزیراعظم تو صرف میاں نواز شریف کے خلاف مقدمات کے فیصلے ردی کی ٹوکری میں جاتے دیکھ رہے ہیں لیکن ان کے بیان پر عدلیہ کی خاموشی بتارہی ہے کہ ردی کی ٹوکری میں میاں صاحب ہی ڈالے جارہے ہیں۔ آج کل وہ ہر سازش کا پردہ چاک کررہے ہیں، ہر کام میں انہیں سازش نظر بھی آرہی ہے، اب بلوچستان میں 5 سو ووٹ والے کے وزیراعلیٰ بننے پر بھی انہیں سازش نظر آرہی ہے۔
عام طور پر ردی کی ٹوکری کی نذر ہونے والی چیزوں میں غریب گریجویٹ کی ملازمت کی درخواست ہوتی ہے، معصوم ملازم کی قرض یا ایڈوانس کی درخواست یا پھر ظالم ایس ایچ او کے خلاف مظلوم عوام کی درخواست کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ درخواستیں ردی کی ٹوکری میں چلی گئیں۔ لیکن سیاسی اعتبار سے تو پاکستان میں سیاستدان ردی کی ٹوکری میں ڈالے جاتے ہیں اور کمال یہ ہے کہ جو لوگ انہیں ردی کی ٹوکری سے نکال کر سیاست میں فعال کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں کوئی ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈالتا۔ پاکستان میں چشم فلک اور میدان سیاست نے یہ منظر بار بار دیکھا، کبھی مصطفی کھر کو سیاست میں واپس لایا گیا تو کبھی جام صادق کو، کبھی کسی قوم پرست کو ردی کی ٹوکری سے نکال کر سیاست میں لایا گیا لیکن ردی سے نکلی ہوئی چیز بھی جلد ہی ردی ہوگئی۔ آج کل جو فرسودہ نظام پاکستان میں جمہوریت کے نام پر رائج ہے وہ خود ردی ہوچکا ہے۔ زیادہ دن نہیں گزرے وفاق نے سندھ کے گورنر کے لیے سابق چیف جسٹس جناب سعید الزماں صدیقی کا نام پیش کیا اور انہیں گورنر بنادیا، بہت سے لوگوں کو ان کی نامزدگی پر اعتراض تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں گورنر بنانے کے لیے نہیں بلکہ عشرت العباد کو گورنر ہاؤس سے نکالنے کے لیے لایا گیا تھا۔ جسٹس سعید الزماں کا نام گورنر کے عہدے سے بڑا تھا، بڑا رہے گا لیکن عشرت العباد ردی کی ٹوکری میں گئے۔ شاید کبھی واپس لایا جائے لیکن ردی مال ردی ہی ہوتا ہے۔ جسٹس سعید الزماں کی بیماری کو کیش کرواکر ان کی جگہ لینے کی کوشش کرنے والے نہال ہاشمی بھی اب کہیں غائب ہیں۔ غریبوںِ، ضرورتمندوں کی درخواستیں ردی کی ٹوکری میں پھینکی جائیں تو دوبارہ بھی لکھی جاسکتی ہیں لیکن ردی کی ٹوکری میں پھینکا گیا سیاستدان باہر نکل کر بھی ردی ہی رہتا ہے۔