راؤ انوار شکنجے میں

400

جعلی پولیس مقابلوں میں لوگوں کو ہلاک کرنے کے شوقین راؤ انوار اس بار شکنجے میں آئے ہوئے لگ رہے ہیں اور لگتا ہے کہ نقیب اللہ محسود کو جعلی مقابلے میں قتل کردینا ان کا آخری کارنامہ ہوگا۔ اس ضمن میں جو تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی تھی اس نے نقیب اللہ مرحوم کو بے قصور قرار دیا ہے اور راؤ انوار کو برطرف کردیا گیا ہے۔ یہ کام پہلی بار ہوا ہے ورنہ وہ اپنے منصب پر رہتے ہوئے اپنے خلاف تحقیقات میں رکاوٹ بنتے رہے ہیں۔ ان کو منصب سے ہٹا دینا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ تحقیقاتی کمیٹی اگر یہ سمجھتی ہے کہ نقیب اللہ محسود بے قصور تھا اور اس کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا تو راؤ انوار کو گرفتار کیا جانا چاہیے۔ محکمہ پولیس میں ان کے اور بھی ہمدرد ہوں گے کیونکہ جعلی پولیس مقابلے ان کی قیادت میں اور ان کے حکم پر تو ہوتے تھے مگر ایک پوری ٹیم شامل ہوتی تھی۔ ان لوگوں کو بھی پکڑا جائے ۔ ان پر پھندا کسا گیا تو وہ خود بہت سے انکشافات کردیں گے۔ تحقیقاتی کمیٹی نے نقیب اللہ کے قتل میں ملوث راؤ انوار اور ان کی ٹیم کے خلاف مقدمات درج کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ کمیٹی رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ کے دہشت گرد ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور راؤ انوار نے 2014ء کی جو ایف آئی آر کمیٹی کے سامنے پیش کی اسے بھی بوگس قرار دے دیا گیا۔ راؤ انوار کا نام ای سی ایل (ایگزیکٹ کنٹرول لسٹ) میں بھی ڈالا جارہا ہے تاکہ وہ ملک سے فرار نہ ہوسکے۔ راؤ انوار گزشتہ 9 سال سے ضلع ملیر میں تعینات تھا۔ کراچی ایئرپورٹ بھی ملیر تھانے کی حدود میں آتا ہے جہاں اس نے من پسند افراد کو تعینات کروایا تاکہ منی لانڈرنگ کو آسان بنایا جاسکے۔ یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ راؤ انوار نے ملیر میں تعیناتی کے دوران میں بیرون ملک کئی سفر کیے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سفر اپنے اثاثے بیرون ملک منتقل کرنے کے لیے کیے گئے۔ 70 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پانے والے راؤ انوار کا کئی کروڑ کا ایک بنگلہ تو صرف اسلام آباد میں ہے۔ اس کی تعیناتی کے دوران ہی ملیر میں 60 پولیس مقابلے ہوئے جن میں 260 افراد مارے گئے۔ مارے جانے والوں کا تعلق دہشت گردوں سے ظاہر کرکے راؤ انوار ہر طرح کی پوچھ پرسش اور تحقیقات سے بچ نکلتا تھا بلکہ اعلیٰ حکام کی نظر میں ہیرو بھی بن گیا تھا۔ لیکن اس بار یہ خونخوار اونٹ پہاڑ تلے آگیا ہے اور تحقیقات کے نتیجے میں اور بھی بہت کچھ سامنے آئے گا۔ تاہم اس کا امکان نہیں کہ اس کی پشت پناہی کرنے، اس سے کام نکلوانے اور ہر بار بچا لے جانے والی با اثر شخصیت کا نام بھی سامنے آسکے لیکن زبان خلق پر یہ نام تو آرہا ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ اور سی ٹی ڈی کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ثناء اللہ عباسی نے یقین دلایا ہے کہ نقیب اللہ محسود کے معاملے میں انصاف ضرور ہوگا۔ لیکن اس سے پہلے جو بے گناہ لوگ مارے گئے انہیں انصاف کون دلوائے گا؟ ایسا لگتا ہے کہ راؤ انوار نے زعم آکر نقیب اللہ محسود کو نشانہ بنا ڈالا۔ 27 سالہ نقیب اللہ گزشتہ 10 سال سے کراچی میں رہ رہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ جب کراچی آیا تو صرف 17 سال کا تھا۔ اس عرصے میں اگر اس کی سرگرمیاں مشکوک تھیں تو اسے پکڑا کیوں نہیں گیا۔ نقیب اللہ کا حلیہ اور اس کے مشاغل اسے کسی بھی طرح دہشت گرد ثابت نہیں کرتے۔ راؤ انوار نے دو پیاری پیاری بچیوں کو بھی ان کے باپ سے محروم کردیا لیکن اس بار وہ پکڑ میں آگیا ہے۔ اس پر جو الزاما لگائے گئے ہیں ان کا ثبوت راؤ انوار کے پاس نہیں ہوگا۔ راؤ انوار کے پاس یہی راستہ بچا ہے کہ وہ اپنے خلاف تحقیقات کو جانبدارانہ قرار دیتے رہیں چنانچہ انہوں نے ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ پر جانبداری کا الزام لگایا ہے۔ راؤ انوار اور دیگر پولیس اہلکاروں کے بیانات میں تضاد ہے۔ نقیب اللہ کے ساتھ دیگر دو افراد بھی ہلاک ہوئے تھے ان کے بارے میں کوئی تحقیقات سامنے نہیں آئی۔ اسی اثناء میں سہراب گوٹھ پر راؤ انوار کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس حسب روایت ٹوٹ پڑی اور علاقہ میدان جنگ بن گیا۔ پولیس نے گولیاں بھی چلائیں اور شیل بھی برسائے جس سے دو افراد زخمی ہوگئے۔ اندھا دھند لاٹھی چارج سے بھی مظاہرین منتشر نہیں ہوئے، سپر ہائی وے تا دیر بند رہی۔ رینجرز نے پہنچ کر صورتحال پر قابو پایا۔ راؤ انوار کے خلاف گزشتہ جمعہ کو قومی اسمبلی میں بھی احتجاج کیاگیا ہے۔ خیبر پختون خوا اسمبلی میں قرار داد مذمت منظور کی گئی لیکن سندھ کے وزیر اطلاعات ناصر شاہ راؤ انوار کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں کہ وہ ایک بہادر افسر ہیں اور دلیل یہ کہ ان پر خودکش حملہ بھی ہوچکا ہے۔ اس حملے کی جو تفصیل سامنے آئی ہے اس سے یہ بھی جعلی معلوم ہوتا ہے۔ ناصر شاہ کی طرف سے راؤ انوار کی تعریف کرنا بلا وجہ تو نہیں ہوگا لیکن وہ اتنی بڑی اور اہم شخصیت نہیں کہ ان کو راؤ انوار کا پشت پناہ قرار دے دیا جائے، یہ کھیل ان سے بہت اوپر کی سطح کا ہے۔