گڈانی شپ بریکنگ ،ٹیکسٹائل گارمنٹس کانکنی، سمیت صنعتوں میں ہیلتھ وسیفٹی کی صورتحال تباہ کن ہے

633

فیکٹریوں ،کارخانوں اور کام کی جگہوں پر ہیلتھ وسیفٹی اور لیبر قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے
”نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن“(NTUF) کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرے میں مطالبہ
کراچی : گڈانی شپ بریکنگ اورملک بھر میں ٹیکسٹائل ،کانکنی سمیت تمام صنعتوں میں ہیلتھ وسیفٹی کی دگرگوں صورتحال اور لیبر قوانین سے روگردانی کے نتیجے میں فیکٹریوں ،کارخانوں اور کام کی جگہوں پر مسلسل حادثات میں محنت کشوں کی زندگیوں سے محرومی اور زخمی ہونے کے خلاف آج کراچی پریس کلب پر “نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن” NTUF))کے زیر اہتمام ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔مظاہرے کی قیادت فیڈریشن کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکریٹری ناصر منصور کر رہے تھے ۔مظاہرے میں گڈانی شپ بریکنگ سمیت مختلف صنعتوں سے وابستہ محنت کشوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔ انھوں نے ہاتھوں میں اپنے مطالبات پر مبنی بینرزاور کتبے اٹھا رکھے تھے اور زبردست نعرہ بازی کر رہے تھے ۔اس موقع پر احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ گڈانی شپ بریکنگ سے لے کر ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئی فیکٹریوں ، کارخانوںاور کام کی جگہوں پرلیبر قوانین کے عدم اطلاق اور ہیلتھ وسیفٹی کے تسلیم شدہ اصولوں اور معیارات سے مالکان کی مسلسل روگردانی اور حکومت ومتعلقہ اداروں کی مجرمانہ غفلت ،لاپروائی اور سرپرستی کی روش نے محنت کشوں کو منہ کے موت میں دھکیل رکھا ہے جس کا منطقی نتیجہ آئے روز محنت کشوں کی کام کی جگہوں پر دورانِ کار شہادتیں اور زخمی ہو کر اپاہچ بن جانا ہے۔ سانحہ بلدیہ ( علی انٹر پرائز )میں 260مزدوروں کی شاہدتوںسے لے کر یکم نومبر 2016کے سانحہ گڈانی شپ بریکنگ میںدورانِ کار 30محنت کشوں کا جھلس کر شہید اور درجنوں کے زخمی ہوجانے کے سانحات اس کی بدترین مثالیں ہیں جن پر مالکان سے لے کر حکمرانوں اور لیبر سے متعلقہ اداروں کی مجرمانہ بے حسی ان کے ظلم کی منہ بولتی تصویر ہے۔یکم نومبر کے سانحہ گڈانی کے بعد تاحال گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں کام کے دوران 10محنت کش اپنی زندگیوں سے محروم اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیںاور یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں ہے۔اسی طرح عالمی ادارہ محنت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میںہر سال 2.3ملین ورکرزکام کی جگہوں پر حادثات کے نتیجوں میں موت کا شکار بن جاتے ہیں ۔ اگر ملک میں جاری فیکٹریوں ،کارخانوں اور کام کی جگہوں کو مسلسل موت کے کنوو¿ں میں تبدیل ہونے سے روکنے کے اقدامات نہیں کیے گئے تو کوئی بعیدنہیں کہ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں اولین نمبر پر آ جائے ۔مقررین نے کہا کہ ٹیکسٹائل ،گارمنٹ فیکٹریوں میں آئے روز آگ لگنے کے واقعات تسلسل سے جاری ہیں جو کسی بھی وقت سانحہ بلدیہ جیسے المناک سانحات کو جنم دینے کے امکانات رکھتے ہیں لیکن اس صورتحال کے تداراک کے لیے اقدامات کرنا کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے ۔نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن سمیت ملک کی مزدور تنظمیں ان سانحات سے قبل اور اس کے بعد مسلسل اس امر کی نشاندہی اور اس پر احتجاج کرتے چلے آ رہے ہیں کہ فیکٹریاں، کارخانے اور کارگائیں محنت کشوں کے لیے محفوظ نہیں ہیں ،ان کی زندگیوں اور صحت سے مسلسل کھلواڑ جاری ہے جس کے لیے بروقت اقدامات بالخصوص ہیلتھ وسیفٹی کے معیارات اور لیبر قوانی پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے لیکن نہ ہی ان سانحات سے کسی نے کوئی سبق حاصل کیا ہے اور نہ ہی کوئی اس مزدور کش انسان کش صورتحال کے سدِباب کے لیے سنجیدہ نظر آتاہے۔دوسری جانب ملک بھر کی کانوں میں کام کرنے والے لاکھوں محنت کشوں کے لیے کانیں (مائینز) بارودی سرنگیں بنی ہوئی ہیں جن میں روزکان کن زندہ درگور ہوتے ہیں لیکن دور دراز علاقوں میں ہونے کے باعث ان کانوں میں ہونے والے حادثات کی بازگشت کم ہی سنائی دیتی ہے ۔ملک بھر کی دیگر صنعتوں کی طرح کانوں میں کام کرنے والے ورکرزبھی مسلسل کام کی جگہوں پر موت کے منہ میں جا رہے ہیں لیکن ان کی صحت وسلامتی کے لیے کسی قسم کے اقدامات ہوتے نظر نہیں آتے۔انھوں نے کہا کہ ا س ساری صورتحال کی براہِ راست ذمہ دای فیکٹری مالکان، حکومت اور متعلقہ اداروں کے راشی افسران پر عائد ہوتی ہے جو اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیے فیکٹریوں ،کارخانوں کومزدوروں کے قتل کے لائسنس جاری کرتے ہیں اور ان سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے۔انھوں نے مزید کہا ہے کہ سندھ اسمبلی میں سہہ فریقی مشاور ت سے تیارہ ہیلتھ وسیفٹی بل پاس کرنا خوش آئند امر ہے لیکن یہ اس وقت تک قانون کی کتابوں میں محض ایک اور قانون کے اضافے کے سوا کچھ نہیں جب تک اس کے عملی اطلاق کے نتیجے میں اس کے ثمرات سے محنت کش مستفید نہ ہوں ۔یہ عمل ملک بھر میں ہیلتھ وسیفٹی کے لیے خصوصی قانون سازی، معیارات اور لیبر قوانین پر عمل درآمد سے مشروط ہے ۔ لیبر قوانین پر سختی سے عملدرآمد، لیبر انسپیکشن کو یقینی بنانے ،کام کی جگہوں پر ورکرز کو حفاظتی اقدامات ، آلات اور ان کے استعمال کی تربیت دینے جیسے اقدامات ہی اس صورتحال میں خاطر خواہ کمی کا سبب ہوسکتے ہیں۔انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ فیکٹریوں ،کارخانوں اور کام کی جگہوں پر لیبر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے،حفاظتی اقدامات ، آلات اور ان کے استعمال کی تربیت یقینی بنائی جائے،سندھ کی طرح ملک بھر میںہیلتھ وسیفٹی کا قانون فی الفور پاس کرتے ہوئے اس پر عمدرآمد کو یقینی بنایا جائے ،پرائیویٹ سوشل آڈیٹنگ سسٹم ختم کیا جائے، لیبر انسپیکشن کو مو¿ثر بنایا جائے ،احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرنے والوں میں”نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن “(NTUF)کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکریٹری ناصر منصور ،”شپ بریکنگ ورکرز یونین گڈانی“ کے صدر بشیر احمد محمودانی ،”ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن“ (HBWWF)کی مرکزی جنرل سیکریٹری زہرا خان ،” سانحہ بلدیہ متاثرین ایسوسی ایشن “ کی چیئر پرسن سعیدہ خاتون اور دیگر شامل تھے ۔