ہم کنٹینر ہمسفر بھی بن پائیں گے؟

295

عارف بہار

پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے لاہور کے مال روڈ پر ہم کنٹینر ہونے کا مظاہرہ تو کیا مگر یہ سوال باقی رہا کہ کیا یہ جماعتیں مشترکہ منزل کی راہ پر ہم سفر بھی بن پائیں گی؟ مال روڈ پر ہونے والا احتجاج بنیادی طور علامہ طاہر القادری کی تحریک اور میزبانی میں منعقد ہوا۔ جس کا مقصد ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف دلانا تھا درحقیقت یہ حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے مختلف الخیال اپوزیشن جماعتوں کو مشترکہ مقصد کی لڑی میں پرونا تھا۔ پاکستان کے موجودہ منظر میں گرینڈ اپوزیشن کا مقصد حاصل کرنا کاردارد ہے۔ گرینڈ اپوزیشن کی راہ میں سب سے کٹھن مقام پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان شخصیات، سیاسی حکمت عملی اور آنے والے دنوں کے منظر اور مقصد کا اختلاف ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کا خیال ہے کہ انہوں نے بڑی مشکل سے پنجاب میں مسلم لیگ ن کا مقابلہ اور چیلنج کرنے کا مقام حاصل کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے پنجاب میں تحلیل ہونے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پہلے ق لیگ نے پُر کرنے کی کوشش کی تھی مگر ق لیگ بدلے ہوئے ماحول میں پانی کا بلبلہ ثابت ہوئی تھی اور اس کی جگہ پی ٹی آئی نے اس خلا کو پر کر لیا تھا۔ اب پنجاب میں مسلم لیگ ن کے بعد دوسری بڑی پارلیمانی اور عوامی جماعت پی ٹی آئی ہی معلوم ہورہی ہے۔ پیپلزپارٹی پرانے نعرے اور بلاول زرداری کے نئے چہرے کے ساتھ پنجاب میں اپنے سیاسی احیاء اور بحالی کی خواہش دل میں بسائے ہوئے ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ جب پی ٹی آئی کمزور ہو اور پیپلزپارٹی کے نامی گرامی گھرانے واپس اپنی پرانی جماعت کی طرف لوٹ آئیں۔
پنجاب میں پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی سیاست کا یہ تضاد ایک کھلی حقیقت ہے۔ اسی طرح عمران خان نے نوازشریف کی ذات اور جماعت کے بعد جس شخص کو اپنا ہدف بنائے رکھا ہے وہ سابق صدر آصف علی زرداری ہیں۔ عمران خان بار بار سندھ میں جا کر انہیں للکارتے رہے ہیں جس کا جواب ان کی طرف سے خیبر پختون خوا میں تقریروں کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ عمران خان کے لیے ایک آصف زرداری کے خلاف سخت لائن چھوڑ کر اچانک ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر سامنے آنا آسان معاملہ نہیں۔ اس سے عوام میں پی ٹی آئی کی سیاست کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے اور مسلم لیگ ن کو دونوں کو ایک ثابت کرنے کا موقع ہاتھ آسکتا ہے۔ اس مشکل کو پاٹنے کا بیڑہ علامہ طاہر القادری نے اُٹھایا اور انہوں نے دو انتہاؤں پر کھڑی جماعتوں کو ہم کنٹینر ہونے کے لیے صرف کنٹینر ہی نہیں ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کے ایجنڈے کا مشترکہ مقصد بھی فراہم کرنے کی کوشش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مشترکہ مظاہرے کا رنگ بہت پھیکا رہا اور اس سے گرینڈ اپوزیشن اور موجودہ حکومت کو گرانے کا خواب بکھر تا ہوا دکھائی دیا۔ عمران خان اور پیپلزپارٹی دونوں آنے والے دنوں کی سیاست اور منظر پر نظریں جمائے ہیں اور ان کے لیے گرینڈ اپوزیشن کی چنداں اہمیت نہیں۔ عمران خان جو منزل کو دوگام پر سمجھ رہے ہیں نواب زادہ نصراللہ خان کی طرح اب چھوٹی چھوٹی جماعتوں کا ’’ٹائٹینک‘‘ سجا کر آگے بڑھنے سے گریزاں ہیں۔ انتخابی اتحاد بنانا سیاسی جماعتوں کا حق ہے مگر بہتر یہ ہے کہ اپوزیشن اب نئے تجربات پر وقت ضائع کرنے کے بجائے عام انتخابات پر توجہ مرکوز کرے اور سسٹم کا پہیہ رواں رہنے دیا جائے۔ سسٹم کا چلتے رہنا ہی سیاسی جماعتوں کی بقا ہوتی ہے۔
پیپلزپارٹی کو پنجاب میں ایک مضبوط اتحادی کا ساتھ چاہیے اور عمران خان پنجاب کے خیمے میں پیپلزپارٹی کے سر داخل کرنے کے مضمرات سے آگاہ ہیں۔ سیاست کا گورکھ دھندہ گرینڈ اپوزیشن کے خواب کے شرمند�ۂ تعبیر ہونے میں رکاوٹ ہے۔ یہی وہ محرکات تھے کہ مال روڈ پر سجے کنٹینر پر عمران خان اور آصف زرداری کی آمد کا انداز جدا رہا۔ اختلافات کا جام چھلکنے کے اندیشے کے باعث جلسے کو دوسیشنز میں تقسیم کرنا پڑا۔ آصف زرداری آئے تو اسٹیج پر عمران خان موجود نہیں تھے اور عمران خان آئے تو اسٹیج آصف زرداری سے خالی ہو چکا تھا۔ یہ تو خیریت گزری کہ عمران خان اور آصف زرداری نے ایک دوسرے کے خلاف تقریر نہیں کی۔ اس انداز کو پی ٹی آئی کی سہولت اور اصرار کی خاطر اختیار کرنا پڑا اس لیے پیپلزپارٹی نے اس توہین آمیز رویے کو بھانپ لیا اور یہی وجہ ہے کہ مال روڈ کے جلسے کے آغاز سے تھوڑا پہلے بلاول بدین میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے میاں نوازشریف اور عمران خان دونوں پر برس رہے تھے۔
پی ٹی آئی اور عمران خان کی جلسے میں کیفیت ’’آئے نہیں لائے گئے ہیں‘‘ سے چنداں مختلف نہیں تھی۔ پی ٹی آئی کا یہ اُکھڑا اُکھڑا انداز تھا کہ جلسہ بے کیف اور بے تاثر رہا۔ پی ٹی آئی نے اپنی تنظیمی قوت کو جلسے کی کامیابی کے لیے استعمال نہیں کیا۔ علامہ طاہر القادری بھی پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی قوت پر بھروسا کرکے بیٹھ گئے تھے۔ یوں علامہ طاہر القادری اور شیخ رشید احمد پیپلزپارٹی کو ذرا مختلف انداز ہی سے سہی ہم کنٹینر بنانے میں کامیاب تو ہوئے مگر وہ اس انہیں اگلی منزلوں اور راستوں پر ہم سفر نہ بنا سکے۔ مستقبل قریب میں بھی اس معجزے کا کوئی امکان نہیں۔ پیپلزپارٹی پارلیمانی قوت ہے اور سسٹم کا دھڑن تختہ کرنے کے لیے اہم ہے اور تحریک انصاف پنجاب میں اسٹریٹ پاور کے طور پر مسلم لیگ ن کو چیلنج کر سکتی ہے یوں دونوں جماعتیں زمینی حقیقتیں ہیں اور مشکل یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے بغیر پسندیدہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے مگر دونوں کو ایک چھتری تلے جمع کرنا اس سے بھی بڑی مشکل ہے۔ مال روڈ کے جلسے کا رنگ وآہنگ اسی مشکل کا اظہار تھا۔