مجلس ملعونین کے نمائندے

290

مظفر اعجاز

عجیب لوگ ہیں جمہوریت سب سے اہم ہے۔ پارلیمنٹ بالا دست ہے۔ جو فیصلہ کرنا ہے پارلیمنٹ میں آکر۔۔۔ سارے فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں۔ چند برس قبل یہی راگ الاپنے والے بعض سیاستدانوں۔۔۔ لیکن ہم انہیں سیاستدان کیسے لکھیں، سیاستدان تو سیاست جاننے والے کو کہتے ہیں، یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے یہ بعض سیاستدان کہتے ہیں پارلیمنٹ پر لعنت ہے۔ میں تو لعنت سے بھی بڑا لفظ بولنے والا تھا۔ پھر کہا کیوں نہیں اس کا جواب نہیں۔ جلسے کو گرمانے کے لیے جناب شیخ نے استعفا لہرایا اور پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی لیکن صبح کو بھول گئے اور استعفے پر بھی لعنت بھیج دی۔ عمران خان نے کہا کہ میں تو لعنت سے بھی سخت الفاظ کہنا چاہتا تھا گویا لعنت پر تو وہ بھی متفق ہیں۔ یعنی ان کی پارٹی کے تیس پینتیس ارکان بھی متفق ہیں۔ اس لعنت میں دو باتیں ہیں اگر یہ کہا جائے کہ ایک نااہل شخص کو پارٹی کا صدر بنانے والی پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتا ہوں تو یہ کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے۔ اس پارلیمنٹ نے پاکستان کے آئین کو معطل کرنے والے جنرل پرویز، جنرل ضیا اور جنرل ایوب کو صدر منتخب کیا تھا۔ عدالت کے مجہول فیصلے سے نااہل قرار پانے والے اور پورے آئین کو معطل کرنے والے کے جرائم میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن اسی پارلیمنٹ نے یہ جرم تین مرتبہ کرنے والے کو صدر کے طور پر مسلط رکھا اور شیخ رشید صاحب اسی کے نفس ناطقہ تھے۔ بقول ضرار خان، چیف ’’بولتو‘‘ تھے، اور جنرل صاحب نے نواز شریف کی حکومت سمیت پارلیمنٹ پر جو چیز بھیجی تھی وہ لعنت ہی تو تھی۔
ہماری رائے میں کسی کو منتخب کرنے یا مسترد کرنے پر پارلیمنٹ کو مطعوں یا ملعون کرنے سے زیادہ اہم وہ کام ہیں جن کی بنیاد پر اسے ملعون قرار دیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر شرعی قوانین کے بجائے انگریز کے قوانین پر فیصلے، سودی نظام کے حق میں دلائل، پاکستان پر ڈرون حملوں پر ڈرون گرانے کا فیصلہ کرنے کے باوجود ڈرون حملے برداشت کرنا، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان واپس نہ لانے والوں کو بار بار حکمران بنانا، اسی پارلیمنٹ نے میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنایا وہ عافیہ کو نہیں لاسکتے۔ اسی پارلیمنٹ میں شریعت کے خلاف باتیں اور قانون سازی ہوتی ہے۔ دینی مدارس کے خلاف غبار نکالا جاتا ہے۔ اس پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے متفقہ غدار الطاف جن کے نامزد کردہ پچاس سے زائد ارکان موجود ہیں لیکن پھر بھی اسی ایوان میں 17 جنوری کو اس پر لعنت بھیجنے والے اور اس کی توہین کرنے اب بھی موجود ہیں۔ تو پھر کیا کہا جائے۔ درج بالا کام لعنت کے مستحق ہیں یا ایک فیصلہ جس سے صرف ایک پارٹی کے لوگ خوش یا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ چلیں ہم تو لعنت نہیں بھیجتے لیکن یہ اصول تو سب کو معلوم ہے کہ لعنت اگر درست ہوتی تو ٹھیک ورنہ بھیجنے والے کے پاس پلٹ کر آتی ہے۔ اس معاملے میں ایک عجیب صورت ہے، لعنت پارلیمنٹ پر بھیجی گئی اور بھیجنے والے بھی پارلیمنٹ کے اندر ہیں۔ گویا اگر درست تھی تو وہ خود بھی اس کے مستحق ٹھیرے اور غلط تھی تو بھی ان ہی کے پاس آئی، اس طرح انہوں نے استعفا نہ دے کر پارلیمنٹ کو مطعون تو کرواہی دیا۔ اگلے دن پارلیمنٹ کے وہ اراکین گرم ہوگئے جو مسلم لیگ یا اس کے حلیف ہیں چناں چہ انہیں وہ چیز یاد آگئی جو انہیں حلف برداری کے وقت سے اب تک یاد نہیں تھی۔ یعنی پارلیمنٹ کا تقدس اور فوری طور پر مذمتی قرار داد منظور کرلی۔ پارلیمنٹ کا تقدس۔۔۔ یہ ایسا لفظ ہے جیسے جمہوریت ہے لیکن عوام پر ظلم کرنے والے قوانین منظور کرتے وقت، دستور کے بنیادی مطالبے قرآن و سنت کے برخلاف قانون سازی کرتے وقت تقدس کیوں یاد نہیں آتا۔ عوام کی توہین کیوں محسوس نہیں ہوتی۔ جو اراکین شیخ رشید اور عمران خان کے خلاف ہیں ان کی بات اس وقت تک بے وزن رہے گی جب تک وہ قرآن و سنت کو بالادست قانون تسلیم کرکے اس کے مطابق فیصلے نہیں کریں گے اور لعنت بھیج کر پارلیمنٹ میں رہنے والے ارکان نے تو اسے مجلس ملعونین ہی بنادیا ہے۔ اب ملعونین کے ایوان سے جو کہا جائے گا وہ مشتبہ ہی رہے گا۔ بات بھی عجیب ہے لعنت بھیجنے والے خود لعنت زدہ ایوان میں آکر بیٹھ گئے ہیں۔
پاکستانی قوم کے ساتھ اس سے زیادہ سنگین کوئی مذاق نہیں ہوسکتا، کبھی جمہوریت کے خلاف مہم چلانے والے جمہوریت کے چمپئن بن جاتے ہیں، کبھی مارشل لا کی پیداوار لوگ مارشل لا کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہر مارشل لا کے بعد حکومت پانے والی پارٹی جمہوریت کی چمپئن قرار پاتی ہے اور اکثریت کے بل پر تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر جمہوری آمریت مسلط کرنے والے جمہوریت کے دعویدار بلکہ پاسباں قرار پاتے ہیں۔ یہ کھیل اسی طرح چلتا رہے گا کیوں کہ پاکستانی عوام اپنے ملک کے مستقبل کا نظام ایسے ہی لوگوں کو دے کر گھروں میں جا کر سو جاتے ہیں انہیں اپنے ملک سے کوئی لگاؤ نہیں ہے یہ صرف 14 اگست کو محب وطن بنتے ہیں اور قومی اہمیت کے فیصلے کرتے وقت انہیں کوئی فکر نہیں ہوتی۔ پھر پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے والے اسمبلی میں آئیں یا روسی بھارتی ٹینکوں کی دھمکیاں دینے والے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔