جہاں جنسی تعلیم ہے وہاں کیا حال ہے؟؟

1086

غزالہ عزیز

بیربل سے بادشاہ نے پوچھا : ’’بیربل! مجھے بتاؤ کہ کیا دنیا ایسے لوگوں سے بھری ہوئی ہے جو آنکھیں رکھتے ہیں یا ایسے لوگوں سے جو آنکھوں کے بغیر ہیں۔‘‘
شہنشاہ کی رائے تھی کہ دنیا ایسے لوگوں سے بھری ہوئی ہے جو آنکھیں رکھتے ہیں۔ مگر بیربل شہنشاہ کے خیالات سے اتفاق نہیں رکھتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا بے چشم لوگوں سے بھری ہے۔ شہنشاہ نے بیربل کو اپنی بات ثابت کرنے کے لیے انتہائی مختصر وقت دیا۔ بیربل اُسی وقت ایک کپڑا لے کر سڑک پر کھڑا ہوگیا، بیربل نے اُس کپڑے کو سر کے گرد لپیٹ لیا۔ سڑک پر گزرنے والے کئی لوگوں نے اس سے دریافت کیا ’’یہ کیا ہے؟‘‘ اُس نے جواب دیا ’’یہ ایک پگڑی ہے‘‘۔ بیربل نے سر سے پگڑی اُتار کر اپنی گردن کے گرد لپیٹ لی۔ اب گزرنے والے لوگوں نے اُس سے پھر پوچھا ’’یہ کیا ہے‘‘۔ اُس نے جواب دیا ’’یہ گلوبند (مفلر ہے)‘‘۔ بیربل نے اب اس کپڑے کو نکال کر جسم کے گرد لپیٹ لیا تو پھر لوگوں نے پوچھنا شروع کیا ’’یہ کیا ہے؟‘‘ تو اس نے جواب دیا ’’یہ دھوتی ہے‘‘۔ اب بیربل نے شہنشاہ سے کہا کہ ’’دیکھیے مہاراج! ان لوگوں کی آنکھیں بھی ہیں پھر بھی وہ ’’اصل چیز‘‘ کو نہیں دیکھتے۔۔۔ یہ صرف ایک کپڑے کا ٹکڑا ہے جس کو مختلف انداز سے استعمال کیا گیا تھا۔ لوگ اس کو مختلف ناموں سے یاد کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ یہ نام مختلف چیزوں کے ہیں۔ پھر بیربل مزید کہنے لگا کہ ’’دنیا ایسے لوگوں سے بھری ہے جو اصلیت سے آگاہ نہیں ہیں اور میں انہیں اندھا کہتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس رائے کا مالک ہوں کہ ’’دنیا بے چشم لوگوں سے بھری ہوئی ہے‘‘۔
حقیقت ہے کہ دنیا بے چشم ہی نہیں بے عقل لوگوں سے بھی بھری ہوئی ہے۔ لیکن پارلیمنٹ کا بھی یہی حال ہے یہ کم ہی لوگوں کو پتا ہوگا۔ کچھ استعارے ہوتے ہیں جن سے حقیقت کھلتی ہے۔ حالیہ معاملہ قصور کے واقعے کے بعد سندھ اسمبلی میں پاس کی گئی قرارداد کا ہے، جس میں بچوں کے تحفظ اور زیادتی کی روک تھام کے لیے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بچوں کو ’’گڈٹچ اور بیڈ ٹچ‘‘ کی تعلیم دی جائے۔ دوسرے مطالبے میں اسپیکر سندھ اسمبلی کہتی ہیں کہ نئے تعلیمی سال میں بچوں کے لیے خود آگہی بطور مضمون کے شامل کیا جائے۔ دیگر خواتین ارکان کہتی ہیں کہ ملک میں قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث اس قسم کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ پی پی پی کی ایک اور رہنما شازیہ مری کہتی ہیں کہ ’’اب جتنی بھی مخالفت ہو، پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں تیسری، چوتھی اور پانچویں کلاس کے نصاب میں جنسی آگاہی کی تعلیم شامل کرے گی‘‘۔ انداز مختلف ہیں، آوازیں بہت ساری ہیں لیکن وہی بات کہ دنیا بے چشم لوگوں سے بھری ہے جو ’’اصل چیز‘‘ کو نہیں دیکھتے۔ ساری آگاہی دے دیں، قراردادیں پاس کرلیں، یہ بھی بتادیں کہ ’’بیڈ ٹچ‘‘ کیا اور کیسے ہوتی ہے؟ اور گڈ ٹچ کا انداز کیسا ہوتا ہے۔ نصاب میں مضمون بھی ڈال دیں تاکہ اساتذہ زیادہ تفصیل اور زیادہ باریکی سے بچوں کو آگاہی دیں۔ لیکن تربیت کے اُن ذرائع کا کیا کیا جائے جو دن رات بچوں کیا بڑوں کے ذہن کو بھی مسموم کررہے ہیں۔ گزشتہ پندرہ سال کے دوران آزادئ اظہار کے نام پر ٹی وی چینلز کیا کچھ کررہے ہیں۔ ایک تفریحی سیلاب ہے جس میں پوری قوم کو غرق کردیا گیا ہے۔ ہر چینل بھارتی فلمیں، گندے اور اخلاق باختہ ایوارڈ شوز اور ڈرامے سب دکھانے کے لیے آزاد ہے۔
اخلاقی تربیت کے لیے بچوں کے پروگرام تو کسی چینل نے نہیں کیے البتہ ناچ گانے اور بیہودگی کی تربیت میں سب سے آگے ساحر لودھی کیا کررہا ہے، کوئی اس کا بھی نوٹس نہیں لیتا۔ پھر موبائل کمپنیوں کے سستے ریٹ رات بھر کے لیے۔۔۔ نیٹ کا آزادی کے ساتھ استعمال۔۔۔ آخر دیگر ممالک کیا کم عقل ہیں کہ اپنے ہاں نیٹ فلٹر کا نظام رکھتے ہیں اور چینلوں کو پابند کرتے ہیں! ہمارے ہاں میڈیا دینِ اسلام اور شریعت کی پابندیوں سے اس قدر بغض کیوں رکھتا ہے؟ اگر کبھی اس پر بات کی جاتی ہے کہ ٹی وی پر فحاشی اور عریانی کو فروغ نہ دیا جائے تو ’سوال گندم اور جواب چنا‘ کی طرح کہا جاتا ہے کہ اس آلہ (ٹی وی) کو کھولنا اور بند کرنا تو آپ کے اختیار میں ہے۔ آخر کیوں آزاد میڈیا اپنے آپ کو ایک اسلامی ملک کا میڈیا قرار دیتے ہوئے بھی ہر طرح کی مادرپدر آزادی، کوٹھوں کی ثقافت، گندی زبان اور لباس کو فروغ دینا اپنا حق سمجھتا ہے! لڑکیوں کو چست جرسی اور پینٹ پہنا کر ہی ماڈرن دکھانا لازم سمجھتا ہے۔ ڈوپٹے غائب، آستین ختم کرنا بھی ان ہی کا کمال ہے۔ آخر حجاب، اسکارف اور ڈوپٹے ہماری پہچان اور ثقافت میں شامل ہیں۔ ٹاک شوز میں بحث یہ شروع ہوجاتی ہے کہ فحاشی کی تعریف کون کرے گا؟ حالاں کہ کیا اس بحث کی گنجائش ہے جبکہ ہمارے پاس قرآن، اللہ کے احکام اور مجسم قرآن رحمت اللعالمینؐ کا اسوہ حسنہ موجود ہے؟ بات کی جاتی ہے جنسی آگاہی کو پرائمری کلاس کی کتابوں میں شامل کرنے کی۔ آخر یہ بات کیوں نہیں کی جاتی کہ قرآن اور اسوۂ حسنہ کی تربیت کے ذرائع اختیار کیے جائیں۔ بجائے اس کے قرآن کی آیات، اسوہ رسولؐ کے واقعات اور اسلامی شخصیات کے مضامین ہی کو نصاب سے نکالا جارہا ہے۔
مغرب میں امریکا کو اگر دیکھیں تو 2016ء میں وہاں جنسی زیادتی کے ستانوے ہزار (97000) سے زائد کیس رجسٹرڈ ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق رجسٹرڈ کیس کُل واقعات کا محض 34 فی صد ہیں۔ گویا اگر اس لحاظ سے حساب لگایا جائے تو ایک برس میں جنسی زیادتی کے کم و بیش 3 لاکھ واقعات رونما ہوئے۔ وہ بھی ایک ایسے معاشرے میں جہاں شادی کے علاوہ جنسی تعلق رکھنا عیب نہیں۔ جہاں سو فی صد پڑھے لکھے تعلیم یافتہ اور آگاہی رکھنے والے لوگ ہیں، جہاں اسکولوں میں بھی جنسی آگاہی کی تعلیم لازمی دی جاتی ہے، پھر ایسا کیوں ہے؟ معاملہ وہی ہے کہ دنیا بے چشم لوگوں سے بھری ہے جو ’’اصل چیز‘‘ کو نہیں دیکھتے۔