اسلامی سزائیں بجا لیکن۔۔۔ 

630

بابا الف کے قلم سے

مسئلہ افکار کا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو عورت کے متعلق مغربی افکار، فحاشی اور عریانی کو پاکستانی معاشرے کا معمول بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ جس نے عورت کی تعلیم کا ارفع ترین مقصد ملازمت کا حصول قرار دیا ہے۔ اس ملازمت کے تقاضے نبھانے کے لیے ساتھی مردوں سے مسکرا کر، میٹھے اور شیریں لہجے میں بات کرنا، باس کو خوش رکھنا وہ مجبوریاں ہیں جن سے ملازمت پیشہ خواتین کو گزرنا پڑتا ہے۔ جاذب نظر دکھنا، بال کٹوانا، ڈائی کرنا، فیشن کے ملبوسات زیب تن کرنا اور میک اپ سے خود کو پرکشش رکھنا اچھی ملازمت کی ضروریات ہیں۔ سرمایہ دارانہ تہذیب اعلیٰ تعلیم کا استعمال عورت کا معاشرے میں ایک مقام بنانا قرار دیتی ہے اور یہ مقام گھر کی چار دیواری میں نہیں چار دیواری سے باہر ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرے میں وہ خواتین آئیڈیل ہیں جو سوشل ورک کرتی ہوں، کانفرنسوں میں سیاسی، تمدنی اور معاشرتی مسائل کو سلجھانے میں مصروف نظر آتی ہوں اور جو وسیع تعلقات کی حامل ہوں۔ اس معاشرے میں، اسٹیٹس کی دوڑ میں گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین ہی آئیڈیل ہیں۔ یہ خواتین کام کرتی ہیں تاکہ اعلیٰ طرززندگی سے مستفید ہوسکیں، ان کے بچے مہنگے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرسکیں اور سرمایہ دارانہ نظام کو نئے کارکن فراہم کرسکیں۔ یہ نظام عورت اور مرد کی برابری، جنسی آزادی، پسند کی شادی، جنسی طور پر ہراساں کرنے اور گھریلو تشدد جیسے عمومی معاملات کو تو اچھالتا ہے اور بہت اچھالتا ہے لیکن عورتوں کی مرد کے برابر اجرت، حکومت کی طے کردہ کم ازکم مقررہ اجرت کی ادائیگی، کام کے مقررہ اوقات، حفاظتی ماحول، معاوضے کے ساتھ بیماری کی چھٹی، ماہواری اور زچگی کی معاوضے کے ساتھ چھٹی، طبی اور ٹرانسپورٹ کی سہولت کی بات نہیں کرتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کو اپنی دولت آفرینی کے لیے زیادہ سے زیادہ اور سستے سے سستے ورکرز چاہئیں جو خواتین ہوسکتی ہیں۔ یہ نظام آدھی آبادی کو گھر بٹھا کر کھلانا برداشت نہیں کرسکتا۔ اس تہذیب کا نتیجہ عورت مرد کا آزادانہ اختلاط ہے۔ آہستہ روی سے ہم بھی اس جانب گامزن ہیں۔ آج کتنی خواتین ہیں جو چادر اور برقعے کا استعمال کرتی ہیں۔ شادی بیاہ کی کتنی تقریبات ہیں جن میں مرد عورت کے درمیان پارٹیشن کا اہتمام کیا گیا ہو۔ اس نظام نے عورت کی شرم وحیا کو بازار میں بکنے والی کسی بھی چیز سے سستا بنادیا ہے۔ ایک ٹی وی اشتہار میں تعلیم دی جاتی ہے ’’خوب صورتی وہ جو بلا جھجھک ہو۔‘‘ یہ سرمایہ دارانہ نظام مرد اور عورت کو رشتوں کے تقدس سے آزاد کرکے حیوانی جبلتیں پوری کرنے کی حوصلہ افزائی اور آزادی فراہم کرتا ہے۔ اگلے روز بیش تر مارننگ شوز میں زینب کے غم میں شریک ہونے والی زیادہ تر خواتین وہ تھیں جنہوں نے اپنے فلمی کیرئیرکے لیے اپنے گھر اور خاندان کو ’’قربان‘‘ کردیا تھا۔
زینب جیسے خوفناک سانحات سے بچنے کے لیے عجیب وغریب حل تجویز کیے جارہے ہیں۔ ایک حل یہ ہے کہ بچوں کو ابتدائی کلاسوں ہی سے جنسی تعلیم دی جائے۔ انہیں گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ سے آگاہ کیا جائے۔ ہم اپنے بچوں کو یہ بتائیں کہ تمہارے جسم کے کون کون سے حصے جنسی کشش رکھتے ہیں اور تمہیں انجان لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنے تایا، چچا، ماموں الغرض کسی رشتے پر بھی اعتماد نہیں کرنا ہے۔ یہ سب تمہاری عزت وعفت کے دشمن جنسی بھیڑیے ہیں جو زینب کی طرح تمہیں نوچ نوچ کر مارنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن معاشروں میں عشروں سے بچوں کو یہ تعلیم دی جارہی ہے وہاں اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے یا کمی واقع ہوئی ہے؟ اس قسم کی تعلیمات سے بچے اور خواتین تو درندوں کا شکار بننے سے محفوظ نہیں رہیں گی۔ معاشرے سے رشتوں کا تقدس اور اعتماد ختم ہوجائے گا جو الحمدللہ ہمارے یہاں آج بھی برقرار ہے، لیکن جسے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسلامی تعلیمات بچوں کو یہ سب براہِ راست بتائے بغیر اسلامی ماحول کے ذریعے سمجھا دیتی ہیں۔ جن میں بچوں کا بستر الگ کرنا، بھائیوں اور بہنوں کا فاصلے سے رہنا، بچیوں کا اوڑھنی سے اپنی جسمانی آرائش کو چھپانا شامل ہے۔ لبرلز ایک طرف بچوں کو گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ سے آگاہ کرنے کی فرمائش کرتے نظر آتے ہیں، دوسری طرف اس ماحول کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں جس میں گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کا کلچر فروغ پاسکے۔ لڑکے لڑکیاں آزادانہ میل جول رکھ سکیں۔
زینب کے دل ہلا دینے والے سانحے کے بعد ہر طرف سے مجرم کی جلداز جلد گرفتاری اور سخت سے سخت اسلامی سزا دینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ یہ مطالبہ اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کا اس نظام عدل سے اعتماد اٹھ گیا ہے جس کی اساس مغربی قوانین ہیں۔ معاشرے کو اس خوفناک حد تک بگاڑ اور زینب جیسے واقعات سے بچانے کے لیے یقیناًصرف اور صرف اسلامی قوانین ہی مددگار اور معاون ہوسکتے ہیں۔ اسلامی تعزیری قوانین ہی معاشرے کو اس اخلاقی زوال اور بے راہ روی سے بچا سکتے ہیں، لیکن یاد رہے ان سزاؤں کے نفاذ سے پہلے اسلام حکمرانوں پر لازم کرتا ہے کہ وہ اسلام کے معاشرتی نظام کو نافذ کریں۔ مرد اور عورتوں کو ان کے حقوق، ذمے داریوں اور مرد اور عورت کے متعلق افکار سے آگاہ کریں۔ خلاف ورزی کی صورت میں نہ صرف دنیا بلکہ آخرت کے عذاب کا خوف بھی دل میں پیدا کیا جائے۔ اسلامی معاشرتی نظام کے تحت خاندان اور رشتوں کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ عریانی اور فحاشی کی کسی بھی صورت کو معاشرے میں قدم جمانے کا موقع نہ دیا جائے۔ مرد اور عورت کے اختلاط کی ہر صورت کو روکا جائے۔ مرد اور عورت کے شادی کی عمر کو پہنچتے ہی نکاح کا بندوبست کیا جائے۔ نکاح کو آسان اور زنا کو مشکل ترین بنادیا جائے۔ پاکستان میں آج نکاح مشکل اور بہت مشکل، اور زنا آسان اور بہت آسان بنادیا گیا ہے۔ اس کے بعد بھی کوئی بدبخت اگر اپنے افکار اور اعمال کو اسلام کے مطابق نہیں ڈھالتا اور قبیح جرائم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی روک تھام کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سخت ترین سزائیں تجویز فرمائی ہیں جو جرائم کے باب میں لوگوں میں ایسا خوف پیدا کرتی ہیں کہ ارتکاب سے قبل انسان ہزار بار سوچتا ہے اور اس کا حوصلہ سوچ کے مرحلے ہی میں خوف سے جواب دے جاتا ہے۔ یاد رکھیے اسلام لوگوں کو سزائیں دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ خوف کا ایسا ماحول پیدا کرتا ہے کہ کسی میں جرم کرنے کا حوصلہ ہی نہ رہے۔
سرمایہ دارانہ نظام مغرب کے آزادیوں کے تصورات کو فروغ دیتا ہے جس کے نتیجے میں فحاشی، عریانی، جنسی بے راہ روی اور دیگر قبیح جرائم کا راستہ کھلتا ہے اور وہ معاشرے میں اپنی جگہ بنانے لگتے ہیں۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جب معاشرہ ان جرائم کے سدباب سے لاچار ہوجاتا ہے۔ اسلام کے معاشرتی نظام کو نافذ کیے بغیر محض سزاؤں کے نفاذ سے ہم اسلام کے ثمرات سے مکمل طور پر فیض یاب نہیں ہوسکتے۔ اگر آج موجودہ معاشرے میں اسلام کا معاشرتی نظام نافذ کیے بغیر چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا نافذ کردی جائے تو بشمول حکمرانوں کے آدھا پاکستان ٹنٹا ہوجائے گا۔ تب شور اٹھے گا دیکھیے اسلامی سزائیں کس قدر وحشیانہ ہیں۔ معاشرے کو پاکیزہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ قوانین کو ختم کرکے اسلام کا نظام نافذ کیا جائے۔ جس سے تقویٰ، عزت اور عفت کی حفاظت اور پاک دامنی کا ماحول پیدا ہوگا۔ جو اس ماحول کے درپے ہو، اسلامی عدلیہ کی مدد سے اس کو قرار واقعی سزا دے دیجیے۔ سزا پانے والے یہ چند ہی لوگ ہوں گے، لیکن ایک مضبوط اور صالح معاشرہ تشکیل پا جائے گا جس میں زینب جیسی کمزور بچیاں اور عورتیں بھیڑیوں اور درندوں سے محفوظ رہیں گی۔