پرائیویٹ اسکولز مافیا

956

پاکستان میں تو ہر شعبے میں مافیاؤں کا راج ہے۔ جب کسی شعبے کو مافیا لکھا جاتا ہے تو وہ برہم ہو جاتا ہے لیکن ان سے کہا جاسکتا ہے کہ’’دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ‘‘ خصوصاً معاملہ شعبہ تعلیم کا ہو تو خرابی اور افسوس ناک محسوس ہوتی ہے۔ یہ معاملہ یوں تو کئی برس سے چل رہا ہے کہ نجی اسکول میٹرک کے طلبہ سے جون جولائی کی فیس طلب کررہے ہیں جبکہ اپریل میں امتحانات ہو جائیں گے۔ یعنی ان اسکولوں کو مارچ تک کی فیس وصول کرنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن نجی اسکولوں کی منطق بھی عجیب ہے وہ کسی نہ کسی بہانے فیس وصول کرتے ہیں اس مرتبہ بھی کررہے ہیں۔ کچھ طلبہ کے والدین نے شکایت کردی تو ڈائریکٹر پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز منسوب صدیقی کا جواب بڑا دلچسپ تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جن والدین نے درخواست دی ہے ان کی درخواست پر کارروائی ہوگی۔ ویسے تو درخواست جمع ہونے کے کئی ہفتوں بعد بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ایک اسکول کی جانب سے کیا صرف ایک یا دو بچوں کو جون جولائی کی فیس کا واؤچر ملا ہوگا اگر ایک یا چند بچوں کے والدین نے شکایت کی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ تمام بچوں سے فیس طلب کی گئی ہے۔ درخواست دینے والے طلبہ کے والدین کی درخواست پر کارروائی کر کے اسکول کو باقی بچوں سے زائد فیس وصول کرنے کا موقع کیوں دیا جائے گا۔ اسی طرح پرائیویٹ اسکولوں نے عدالت عالیہ کے احکامات کے باوجود پانچ فیصد کے بجائے فیسوں میں دس فیصد اضافے کے واؤچرز طلبہ کو تھما دیتے ہیں اور یہ سلسلہ چھ سال سے چل رہا ہے ۔کیا منسوب صدیقی صاحب کو اس کی بھی درخواست دینی پڑے گی۔ اس سے تو واضح ہو رہا ہے کہ اس کاروبار میں شراکت کس کس کی ہے۔ اسکولوں کی انتظامیہ کا موقف ہے کہ ہمارے پاس تو عدالت کا کوئی حکم نامہ نہیں آیا۔ ظاہر سی بات ہے عدالت ہر اسکول کو تو حکم نامہ نہیں دیتی۔ یہ فیصلہ بھی آج کا نہیں ہے کئی برس پہلے عدالت نے حکم دیا تھا لیکن ڈنکے کی چوٹ پر توہین عدالت ہو رہی ہے۔ مزید افسوس ناک امر یہ ہے کہ طلبہ کو اسکول سے نکالنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ ہمارے خیال میں ڈائریکٹر پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز اور محکمۂ تعلیم کو عدالت کے احکامات پر عملدرآمد کرنا چاہیے اور اگر پھر بھی یہ عملدرآمد نہیں ہو رہا تو اس کا واضح مطلب ہے کہ ملی بھگت چل رہی ہے اس کا تو عدالت کو نوٹس لیناچاہیے۔