کس کی توجہ اپنے کام پر ہے؟

367

پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول زرداری نے کہا ہے کہ ججوں کی توجہ انصاف کے بجائے سیاست پر ہے جس کی وجہ سے انصاف کی فراہمی متاثر ہو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا یہ کہنا تو درست ہے کہ سیاسی معاملات پر توجہ کی وجہ سے انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہو رہی ہے لیکن یہ بھی تو عجیب معاملہ ہے کہ جب کسی بڑے ملزم یا بڑے کیس کی تفتیش کی جائے تو ملزمان کا تعلق کسی سیاسی رہنما سے نکل آتا ہے پھر بھی تفتیش جاری رکھی جائے یا کسی کی گرفتاری عمل میں آئے تو بلاول زردار ی جیسے لوگ کہنے لگتے ہیں کہ اپنے کام پر توجہ نہیں ہے سیاست پر زیادہ ہے۔ اب اس کا کیا جواب دیں کہ جو مقدمہ اٹھاؤ ملزم یا مجرم کا دوسرا سرا کسی بڑے سیاست دان سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ ایان علی کا معاملہ ہو یا عزیر بلوچ کا ۔۔۔ صولت مرزا کا نام ہو یا حماد صدیقی کا ۔۔۔ کھرے سیاسی لیڈروں سے ملتے ہیں ۔پاناما لیکس کا معاملہ ہو یا اقامے کا پیچھے سیاست دان ہی ہوتے ہیں اور اب تو بلاول صاحب بھی کھل کر راؤ انوار کی حمایت میں آگئے ہیں۔ اگر عدالت راؤ انوار کے معاملے میں سنجیدگی سے تفتیش کرے تو دو خطرناک علاقوں میں جانا پڑے گا ایک وہ جو سابق صدارت کی حفاظتی دیوار کے پیچھے بیٹھے ہیں اور راؤ انوار کے اصل تخصص یعنی جعلی اور مشتبہ مقابلے ۔۔۔ ان کے پیچھے جو لوگ ہیں ان تک پہنچنا بھی عدالتوں اور تفتیشی اداروں کے بس میں نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ سابق صدر اور ملک ریاض صاحب کے حوالے سے کچھ انکشافات ہو جائیں گے۔ لیکن راؤ انوار کے شکار کہاں سے آتے تھے اس پر کوئی بات نہیں ہوسکے گی۔ بلاول زرداری نے پہلے تو کہاکہ پولیس مقابلوں سے دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔ لیکن پھر کہا کہ راؤ انوار کو فیئر ٹرائل کا حق ملنا چاہیے تو پھر راؤ انوار کے شکار ڈھائی سو سے زاید لوگوں کو فیئر ٹرائل کا حق ملنا چاہیے۔ یہ ایک بڑا گنجلک معاملہ ہے۔ اگرراؤ انوار کو فیئر ٹرائل کا حق ملنا چاہیے تو پھر راؤ انوار کے شکار ڈھائی سو سے زاید لوگوں کو فیئر ٹرائل کا حق کیوں نہیں دیا گیا۔ جن لوگوں کو مارا جاتا تھا ان کے بارے میں عدالتوں کو بھی معلوم ہے کہ وہ کئی کئی ہفتوں اور مہینوں سے لاپتا ہوتے تھے انہیں کون گھروں سے اٹھاکر لے جاتاتھا۔ لے جاتے وقت بڑی ذمے داری سے تسلی دی جاتی تھی کہ دو دن میں بچہ آجائے گا۔ ابھی آدھے گھنٹے میں چھوڑ دیں گے پھر نامعلوم نمبروں سے فون آتے تھے کہ میڈیا سے رابطہ کیا یا شور مچایا تو لاش ملے گی۔ ان بچوں کو گھروں پر لاکر لاکھوں روپے وصول کرنے کے واقعات بھی رپورٹ ہو چکے ہیں جب ایک دو نہیں کئی ایسے واقعات ہو جائیں تو عدالتوں کو دو ٹوک فیصلہ دینا چاہیے اب تحقیقات اور ثبوت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ اس پر غور کرے کہ بہت سے معاملات میں حکم امتناع دے دیا جاتا ہے اور اس حکم امتناع کے بعد کیا ہوتا ہے یعنی جو ہو رہا ہے وہ جاری رہتا ہے۔ ایسے حالات میں یہ مظلوم کیا کریں انہیں فیئر ٹرائل کا حق کیوں نہیں دیا جاتا۔ بلاول بھی جواب دیں کہ انہیں راؤ انوار کو فیئر ٹرائل کا حق دینے کی فکر کیوں ہوئی ہے جو مظلوم قتل ہوئے ان کے بارے میں خاموش کیوں ہیں ۔ اور یہ جو پولیس مقابلے اور ماورائے عدالت قسم کے قتل ہیں ان کی بنیاد بھی تو آپ کی والدہ کی وزارت عظمیٰ میں وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر نے رکھی تھی۔ اس وقت نہ سہی اب تو ان مقابلوں میں مارے جانے والوں کے فیئر ٹرائل کے حق کی بات کرلیں۔ بات یہی ہے کہ اس ملک میں فیئر ٹرائل شروع ہوتے ہی کوئی نہ کوئی سیاست دان لپیٹ میں آجاتا ہے پھر عدالت سیاست میں مداخلت نہ کرے تو کیا کرے۔ جہاں تک پولیس مقابلوں سے دہشت گردی کے خاتمے کا تعلق ہے تو یہ بات صرف کراچی کی نہیں ہے پورے ملک کی ہے پوری دنیا کی ہے۔ ہر جگہ طاقت کے ذریعے دہشت گردی ختم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ سب کو ناکامی ہو رہی ہے۔ بلاول لگے ہاتھوں یہ تجویز بھی کردیں کہ عزیر بلوچ کو بھی فیئر ٹرائل کا حق دیں ۔