(بی بی سی)
سائنس کی دنیا میں 2017ء کئی چیزوں کے آغاز اور کچھ کے اختتام کا سال رہا۔ اس سال نظام شمسی میں نئے سیارے دریافت ہوئے تو وہیں کیسینی کے 13 سالہ مشن کا خاتمہ بھی ہوا۔
بی بی سی نے سال بھر کے دوران سائنس اور ماحولیات کے میدانوں میں ہونے والے 8بڑے واقعات پر ایک نظر ڈالی ہے۔
خلا میں ثقلیت کی نشاندہی
2017ء میں سائنسدانوں نے ایک اور ذریعے سے خلا میں ثقلیت کی لہروں کو تلاش کیا ہے۔ ان کے مطابق انھوں نے زمین سے ایک ارب نوری سال سے زیادہ مسافت پر واقع 2 بلیک ہولز کے تصادم کی وجہ سے ’سپیس ٹائم‘ میں بدلاؤ کا مشاہدہ کیا ہے۔ لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری (لیگو) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2 بلیک ہولز کے اتصال سے خارج ہونے والی ثقلیت کی لہریں امریکا میں 2 الگ الگ ‘لیگو تجربہ گاہوں میں محسوس کی گئیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ثقلیت کی ان لہروں کی پہلی مرتبہ نشاندہی سے علمِ فلکیات میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔
سیاروں کی دریافت
ماہرینِ فلکیات نے زمین جیسے حجم والے 7 سیارے دریافت کیے ہیں جو ایک ستارے کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ ان ساتوں سیاروں پر مائع پانی ہونے کے امکانات ہیں تاہم اس کا دارومدار ان سیاروں کی دیگر خصوصیات پر ہے۔
ماہرین کے مطابق ان 7 سیاروں میں سے 3تو خلا میں اس علاقے میں گردش کر رہے ہیں جہاں زندگی پائے جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ستارے ٹریپسٹ ون زمین سے 40 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ سائنسی جریدے نیچر کے مطابق ان سیاروں کو ناسا کی سپٹزر سپیس ٹیلی سکوپ اور دیگر آبزرویٹریز نے دریافت کیا ہے۔
خلائی جہاز کیسینی کے مشن کا اختتام
خلائی جہاز کیسینی زحل سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ کیسینی نے حلقہ دار سیارے زحل اور اس کے چاندوں کے گرد سفر کر کے وہاں زندگی کے اثرات کا پتا لگانا ہوتا۔ کیسینی زحل کے گرد نسبتاً محفوظ فاصلے سے گردش کرتا رہا۔ کیسینی نے زحل کے بارے میں معلومات میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اس نے زحل پر عظیم طوفانوں کا مشاہدہ کیا اور اس سیارے کے گرد واقع پیچیدہ حلقوں کے اندر برف کے ذرات کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔
اس کے علاوہ کیسینی نے زحل کے چاندوں ٹائٹن اور اینسیلاڈس کا بھی بغور جائزہ لیا۔ ان چاندوں کی سطح کے نیچے مائع پانی موجود ہے اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہاں سادہ زندگی پائے جانے کے امکانات ہیں۔ کیسینی کا مشن 13 سال قبل 2004ء میں شروع ہوا تھا۔ اس طرح ناسا کی تاریخ کے کامیاب ترین مشنوں میں سے ایک اختتام کو پہنچا۔ اس مشن پر 4 ارب ڈالر خرچ ہوئے تھے۔
پیرس ماحولیاتی معاہدے سے انخلا
گو کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں پیرس معاہدے کو ’منسوخ‘ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن صدر بننے کے بعد سے انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں کئی بیانات دیے ہیں۔ تاہم گزشتہ سال جون میں صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں امریکا کے پیرس کے معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’میری اولین ترجیح امریکا اور اُس کے شہریوں کو محفوظ بنانا ہے اس لیے امریکا پیرس معاہدے سے نکل رہا ہے لیکن اس میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے امریکا سے مذاکرات کیے جائیں یا پھر ایسی شرائط شامل کی جائیں جو اس کے حق میں ہوں۔‘
انسانی ارتقا کی تاریخ
جولائی میں محققین کو شمالی افریقا میں موجودہ نسلِ انسانی کی باقیات ملی تھیں۔ شمالی افریقا میں زمانہ قدیم کے 5 انسانوں کی ایسی باقیات دریافت ہوئی ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدائی انسانی نسل کا وجود پہلے سے تسلیم شدہ 2 لاکھ برس سے ایک لاکھ سال پہلے ہی رہا ہوگا۔ نئی دریافت کے مطابق انسانی نسل کا ابتدائی مرحلہ 2 لاکھ برس قدیم نہیں بلکہ 3 لاکھ سال پرانا ہوسکتا ہے۔
اس نئی تحقیق میں شامل سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس سے اس بات کا بھی اشارہ ملتا ہے کہ انسانی نسل کا ارتقا کسی ایک خاص مقام پر نہیں بلکہ پورے براعظم میں ہوا ہوگا۔ انسانی ارتقا کے بارے میں یہ بہت ہی اہم خبر تھی۔
س علاقے سے جو نیا مواد حاصل ہوا ہے وہ اعلیٰ تکنیک کے مطابق تقریباً 3 ساڑھے 3 لاکھ سال قدیم ہے جبکہ کھوپڑیوں وضع تقریباً موجودہ دور کے انسانوں ہی جیسی ہے۔
دن میں اندھیرا
رواں سال 20 اگست کو پورے امریکا میں دن کے دوران اُس وقت اندھیرا ہو گیا جب چاند سورج کے سامنے آ گیا۔ یہ مکمل سورج گرہن تھا اور عموماً 99 برس میں سورج گرہن مغرب سے مشرقی ساحل پر پہنچتا ہے۔ اس نایاب سورج گرہن کے نظارے کو لاکھوں افراد نے دیکھا۔
خلا میں مہمان سیارچہ
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سال ہمارے نظامِ شمسی میں ایک نئے اور لمبوترے مہمان سیارچے کی آمد ہوئی۔ یہ سیارچہ اکتوبر میں دریافت کیا گیا تھا اور اس کی رفتار اور زاویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نظامِ شمسی سے باہر کسی اور ستارے کے نظام سے آیا ہے۔
ماہرینِ فلکیات نے اسے ‘اومُوامُوا کا نام دیا اور اس سیارچے کے مشاہدے کی کوشش کی۔ یہ سیارچہ ستاروں کے درمیان واقع خلا سے نظامِ شمسی میں داخل ہوا ہے جس کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ اب تک معلوم اجرامِ فلکی میں سے سب سے زیادہ لمبوترا ہے۔ اس سیارچے کی لمبائی 400 میٹر ہے اور تیزی سے گھومنے کی وجہ سے اس کی چمک میں تیزی سے کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔
برفانی تودے میں شگاف
سائنسدانوں کے مطابق خدشہ ہے کہ انٹارکٹیکا میں موجود دنیا کے 10 بڑے برفانی تودوں میں سے ایک تودہ ٹوٹ کر الگ ہونے والا ہے۔ لارسن سی نامی تودے میں طویل عرصے سے موجود شگاف دسمبر کے مہینے میں اچانک بڑھ گیا اور اِس 6 ہزار مربع کلومیٹر لمبے تودے کا صرف 20 کلوميٹر حصہ برفانی خطے سے جڑا ہوا ہے۔
لارسن سی برفانی تودہ انٹارکٹیکا کے سب سے شمالی حصے میں واقع ہے اور اس کی موٹائی 350 میٹر ہے۔ سوانزی میں موجود محققین کے مطابق اگر یہ برفانی تودہ ٹوٹ جاتا ہے تو مستقبل میں پورے شمالی خطے کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہے۔