راؤ انوارفرد یا کردار؟

354

تشدد اور جنگوں کی بے شمار قباحتوں میں ایک بے نام اور گمنام لاشے بھی ہوتے ہیں۔ بے قضاء اور بے وجہ مارے جانے والے اپنا قصور پوچھتے اور لہو تلاش کرتے رہ جاتے ہیں۔ گیہوں کے ساتھ گھن کی صورت پسنے والے ان لوگوں کا خون کسی ترازو میں نہیں تلتا۔ کبھی کبھار یہ لہو اپنے جلاد کے مسکن کا سراغ بھی دیتا ہے اور قاتل کی شناخت اور پہچان بھی کر بیٹھتا ہے۔ گمنام قبروں کی صورت دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے یہاں کسی ظالم اور سفاک طاقت نے اپنا گناہ اورجرم چھپانے کی کوشش کی ہے۔ یہ کسی انتہائی بے قصور آدمی کا لہو ہوتا ہے جو اپنے قاتل کے دامن پر ایک دھبے کی صورت نمودار ہوتا ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا شہر بالخصوص اور پورا پاکستان بالعموم عشروں سے تشدد کی دلدل میں دھنسے رہے۔ یہاں تشدد ایک کاروبار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ پوشیدہ مقاصد کے لیے تشدد، ترقی اور انعام کے لیے تشدد، ذاتی مخاصمت اور فائلوں کا پیٹ بھرنے کی ضرورت کے تحت تشدد غیرضیکہ اندھے قتلوں اور جعلی مقابلوں کی بے شمار وجوہ ہیں۔ انعام واکرام کی برسات صرف اندرون ملک ہی نہیں بیرونی قوتوں کی جانب سے ہوتی رہی ہے۔ گزشتہ بیس برس میں القاعدہ اور طالبان کے نام پر ڈالروں کا اسٹاک ایکسچینج سجا رہا۔ نقیب اللہ محسود کی اب تک سامنے آنے والی کہانی اور اس سے وابستہ حقائق بھی اس من موجی سے نوجوان کے بے قضاء اور بے وجہ مارے جانے والوں کی فہرست میں شامل کر رہے ہیں۔ نقیب اللہ کی زندگی کی یادوں اور لمحات پر مشتمل تصویریں اور ویڈیوز اس کے اندر کے فنکارکا پتا دیتے ہیں۔ اس ذہنیت کے لوگ تشدد مار دھاڑ سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ ایک ویڈیو میں جو قبائلی علاقے ہی میں بنائی گئی ہے نقیب اللہ اپنے ایک ساتھی نوجوان کے ساتھ انتہائی مہارت کے ساتھ روایتی رقص کر رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وزیرستان کا یہ نوجوان کراچی پہنچ کر وہاں کے نظریہ ضرورت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ کراچی کا نظریہ ضرورت یہ ہے کہ وہ ایک بڑا شہر ہے جس میں دہشت گردی اور جرائم کی کئی پرتیں اور جہتیں ہیں۔ یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کچھ کارکردگی دکھانا پڑتی ہے اور باقی کام فائلوں کا پیٹ بھرنے اور فائل کو داخل دفتر کرنے سے چلایا جاتا ہے۔ یہی ضرورت ماورائے عدالت ہلاکتوں اور جعلی مقابلوں کو جنم دیتی ہے۔ چوں کہ تشدد کی فضاء پوری طرح قائم ہے۔ خوف کے سائے پوری رفتار سے لہرا رہے ہیں اس لیے ان مقابلوں پر انگشت نمائی کی جرات بھی کسی کو نہیں ہوتی۔ والدین رو دھو کر چپ ہوجاتے ہیں۔ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی شناخت اس حکمت عملی کے ’’ماسٹر مائنڈ‘‘ کی ہے۔
نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کے حقائق ابھی سامنے آنا باقی ہیں مگر اجتماعی ضمیر نے اس قتل اور اس سے منسوب کہانی کو قبول نہیں کیا۔ مقتول کے گھر والے ہی نہیں پولیس ریکارڈ بھی اس کی بے گناہی کی گواہی دے رہا ہے۔ راؤ انوار کے اطوار بہت پرانے ہیں مگر ان پر خوف اور مصلحت کی دبیز تہہ جمی رہی۔ کراچی میں جاری یہ کھیل سے اگر مصلحت کی چادر بہت پہلے اتار دی گئی ہوتی تو چار سو سے زیادہ افراد کا قتل مشکوک اور مشتبہ نہ ہوا ہوتا۔ جعلی پولیس مقابلے صرف کراچی تک محدود نہیں ہر صوبہ اور علاقہ کم یا زیادہ اس وباء کا شکار ہے۔ رفتہ رفتہ پاکستان دہشت گردی کے عفریت کی گرفت اور آسیب کے سایوں سے آزاد ہو رہا ہے۔ قانون کی حکمرانی کے آثار منظر پر ہویدا ہیں اب تو ماضی کی روح فرسا کہانیوں کو سامنے لانا ہوگا۔ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے بھی عوام کو قانون کی حکمرانی کی نوید سنائی ہے۔ انہوں نے جمہوریت کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان کیا ہے جسے ایک معتبر ادارے کی ضمانت کہا جا سکتا ہے۔ اس ضمانت کی روشنی میں آنے والے دنوں کے لیے بہتری کی امید رکھنا رجائیت پسندی بھی نہیں ہوگی۔ گوکہ ابھی پاکستان کے عوام قنوطیت اور رجائیت کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں۔
راؤ انوار آج کے پاکستان میں ایک فرد نہیں کردار ہے، یہ کردار ہر علاقے میں قانون کی غلامی کے بجائے بااثر طبقات کے آگے اپنے یونیفارم، طاقت اور اختیار سمیت دست بستہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ راؤ انوار جیسے کرداروں اور ان کے پشت پناہوں اور اصل حکمت کاروں کا کھوج لگانا ہوگا۔ قتل ہونے والے واپس نہیں آسکتے نہ اندھے اور بے نام قتل کا شکار ہونے والوں کی یاد میں بہنے والے آنسوؤں کی قیمت ادا ہو سکتی ہے۔ ان لمحوں کا قرض بھی نہیں اتارا جاسکتا جو ان گھرانوں پر قیامت بن کر گزرتے رہے مگر ان لوگوں کا ریاست پر اعتماد بحال کرنے کے لیے ان کی اشک شوئی ضروری ہے۔ بہتر ہے کہ ایک اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کیا جائے جو نہ صرف ریاستی اداروں کی طرف اس طرح مقابلوں کا جائزہ لے بلکہ امریکا کی طرف ڈرون حملوں اور دوسرے پرتشدد واقعات میں جرم بے گناہی کا شکار ہونے والوں کی بات سنے اور انہیں امریکی عدالتوں سے رجوع کرنے میں ان کی مدد کرے۔ جرم بے گناہی میں مارے جانے والوں کے ورثاء ایک صدمے سے گزرے ہیں اور صدمات میں گھرانوں کو معاشی ہی نہیں نفسیاتی اور جذباتی عذاب سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ ریاست کو ان گھرانوں کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ اگر اندھے قتل کا شکار ہونے والوں کے ورثاء کسی شخص پر اُنگلی اُٹھائیں تو اس کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں لمحوں کی تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔