عمران خان۔ تصوف اور پبلک پراپرٹی

449

عمران خان کی تیسری شادی کی خبر اُڑی تو ہمارے قلم میں بھی کھجلی ہونے لگی کہ اس پر ہم بھی کچھ لکھیں بھلا اس سے زیادہ لذیذ موضوع اور کیا ہوسکتا تھا لیکن جسارت کی اخلاقیات مانع تھیں کہ کہیں اسے نجی معاملہ قرار دے کر کالم کو مسترد نہ کردیا جائے، بھلا ہو محترم اطہر ہاشمی کا کہ انہوں نے خود اس موضوع پر قلم اُٹھا کر ہمیں اس شش و پنج سے نکال دیا ہے۔ دلیل ان کی یہ ہے کہ سیاستدان کی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی اس کی پوری زندگی پبلک پراپرٹی ہوتی ہے جسے چاروں طرف سے ٹھونک بجا کر دیکھا جاسکتا ہے۔ ہاشمی صاحب نے اپنا ٹھونک بجانے کا حق استعمال کیا ہے تو ہم کیوں اس سے محروم رہیں۔ چل میرے خامے بسم اللہ۔
عمران خان جب تک سیاست میں نہیں آئے تھے اور صرف کرکٹ کھیل رہے تھے تو ان کے لیے ہر شب، شب برأت اور ہر روز، روزِ عید کی حیثیت رکھتا تھا۔ انہیں مغربی معاشرے میں ’’پلے بوائے‘‘ کی حیثیت حاصل تھی جس سے ہر حسینہ کھیلنا پسند کرتی تھی۔ وہ خود بتاتے ہیں کہ انہوں نے مغرب میں بیس سال تک کرکٹ کھیلی، مغربی معاشرے کو قریب سے دیکھا اور خوب انجوائے کیا۔ سیتا وائٹ کا اسکینڈل تو اس لیے منظر عام پر آگیا کہ اس کا نتیجہ بھی سامنے آگیا تھا ورنہ عمران خان کی مغربی زندگی ایسے اسکینڈلز سے بھری ہوئی تھی۔ جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ جمائما سے بھی ایسا ہی آزادانہ تعلق قائم کرنا چاہتے تھے لیکن وہ یہودی لڑکی گانٹھ کی پوری تھی اس پر آمادہ نہ ہوئی چناں چہ مجبوراً شادی کرنا پڑی۔ کہا گیا کہ جمائما نے اسلام قبول کرلیا ہے اور اس کا اسلامی نام حائقہ خان یا حدائقہ خان رکھا گیا ہے لیکن جمائما نے یہ تکلف گوارا نہ کیا اور اپنا اصل نام ہی برقرار رکھا۔ اس کا قبول اسلام کا معاملہ بھی مشکوک رہا۔ بہرکیف یہ شادی نو سال چلی اس دوران خان صاحب دو بیٹوں کے باپ بن گئے پھر کچھ خان صاحب کی سیمابی طبیعت اور کچھ جمائما کی پاکستانی معاشرے سے بیزاری طلاق کا سبب بن گئی اور دونوں نے جس طرح بہ رضا و رغبت شادی کے بندھن میں بندھنے پر اتفاق کیا تھا اسی طرح اسے توڑنے پر بھی اتفاق کرلیا۔ جمائما اپنے دونوں بیٹوں کو لے کر لندن واپس چلی گئی، عمران خان اپنے بیٹوں سے ملنے لندن جاتے رہتے ہیں‘ وہ جمائما کے گھر پر ہی قیام کرتے ہیں، جمائما اگر کبھی پاکستان آئیں تو وہ بھی خان صاحب کے گھر بنی گالا میں ٹھیرتی ہیں۔ دونوں بیٹے بھی باپ سے ملنے پاکستان آتے رہتے ہیں لیکن شاید وہ انہیں اپنے پاس رکھنے اور پاکستانی ماحول میں ان کی تعلیم و تربیت کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، اس لیے دو چار دن اپنے پاس رکھ کر واپس بھیج دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی شروع کرنے سے قبل ہی تحریک انصاف کو لانچ کرچکے تھے، وہ قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنا رول ماڈل قرار دیتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ شریفوں نے جس ملک کو تباہ کردیا ہے وہ اسے قائد اعظم کے خوابوں کے مطابق ’’نیا پاکستان‘‘ بنا کر اقوام عالم میں سرخرو کرنا چاہتے ہیں اس لیے پوری قوم ان کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھی اور ان کی تمام سرگرمیوں کو حیرت سے تک رہی تھی۔
پھر یوں ہوا کہ 2013ء کے انتخابات میں قابل ذکر کامیابی حاصل کرنے کے باوجود وہ دھاندلی دھاندلی کا شور برپا کیے ہوئے تھے اور شریفوں کی حکومت گرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے لیکن ساتھ ساتھ دوسری شادی کے لیے بھی ’’لڑکی‘‘ کی تلاش میں تھے ان کی نظر ٹی وی چینل کی ایک اینکر پرسن پر پڑی اور اسے دل دے بیٹھے۔ نامور پیام کے مرحلے سے گزرنے کے بعد شادی ہوگئی جس کا میڈیا پر خوب چرچا ہوا۔ یہ شادی ابھی چل رہی تھی کہ کسی نے ان کی ملاقات ایک نیک پارسا اور پہنچی ہوئی خاتون بی بی بشریٰ سے کرادی جو مستقبل کا حال بھی بتاتی تھیں، رکاوٹیں دور کرنے کے لیے وظیفہ بھی تجویز کرتی تھیں۔ تصوف کی منزلیں بھی طے کراتی تھیں، ابن عربی اور مولانا روم کا درس بھی دیتی تھیں اور دُعاؤں کے علاوہ مرید کو تعویذ بھی عطا کرتی تھیں، اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ عمران خان کو ایسی ہی ولی کاملہ کی تلاش تھی جو ان کی بے چین روح کو سکون سے ہمکنار کردے اور جو انہیں ان کی منزل تک پہنچادے۔ بی بی بشریٰ انہیں کیا ملیں ساری دنیا کی دولت ہاتھ آگئی۔ اس نیک بی بی نے اپنے روحانی علم کے ذریعے حساب کتاب کرکے خان صاحب کو بتایا کہ پہلے اپنی دوسری بیوی کو فارغ کرو پھر آگے چلیں گے۔ ریحام خان کا بیان ہے کہ وہ شادی کی پہلی سالگرہ پر خان صاحب سے کسی قیمتی تحفے کی فرمائش کرنے والی تھیں کہ سالگرہ سے پہلے ہی یہ قیمتی تحفہ انہیں طلاق نامے کی صورت میں مل گیا۔ چلیے قصہ پاک ہوا۔ اب خان صاحب پوری یکسوئی کے ساتھ بی بی بشریٰ کے حضور زانوئے تلمذ تہہ کرکے سلوک و معرف کی منزلیں طے کرنے لگے۔ خان صاحب کا بیان ہے کہ بشریٰ بی بی سے جتنی ملاقاتیں ہوئیں فیملی کے ساتھ ہوئیں، فیملی سے ان کی مراد بشریٰ بی بی کی فیملی سے ہے کیوں کہ وہ خود تو چھڑے چھانٹ ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس فیملی میں اس نیک خاتون کے شوہر نامدار بھی ہوتے ہوں گے۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ مرید سلوک کے تمام مرحلے طے کرکے اپنی ’’مراد‘‘ کو پاگیا ہے اور اب منزل وصال باقی ہے تو انہوں نے اپنی منکوحہ کو طلاق دے کر یہ راہ ہموار کردی۔ یہ بات ابھی تک صیغہ راز میں ہے کہ جس نیک و پارسا خاتون کے ساتھ پچیس تیس سال رفاقت رہی ہو اور جس کے بطن سے ان کی چار پانچ اولادیں بھی ہوں اس سے وہ اچانک رشتہ توڑنے پر کیوں مجبور ہوئے۔ کیا خان صاحب کا دباؤ تھا یا بشریٰ بی بی کا اصرار تھا۔ غالب امکان یہی ہے کہ مانیکا صاحب بشریٰ بی بی کے مطالبے پر ہی طلاق دینے پر مجبور ہوئے ہوں گے اگر وہ خلع لیتیں تو بالکل ہی ایکسپوز ہوجاتیں۔ جس اخبار نویس نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے نکاح کی خبر دی ہے (اور وہ خان صاحب کے انکار کے باوجود اپنی خبر پر قائم ہے) اس نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ نکاح اسی روز ہوا جس روز طلاق کی شرعی مدت مکمل ہوئی تھی۔
بہرکیف عمران خان نے ’’نیا پاکستان‘‘ تعمیر کرنے کے بجائے اپنی نئی دنیا بسالی ہے اور وہ بشریٰ بیگم کے ساتھ دریائے تصوف میں غوطہ زن ہیں، ہم قوم کو یہی مشورہ دے سکتے ہیں۔
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخ زیبا لے کر