اجتماعِ اَضداد

396

اردو میں ’’ضِد (دال کے سکون کے ساتھ)‘‘ ہَٹ دھرمی اور اَڑیل پن کو کہتے ہیں، جب کہ عربی میں ’’ضِدّ (دال پر شدکے ساتھ) کسی چیز کے وصفِ مخالف یعنی Opposite، Contrary اور Contra antagonist کو کہتے ہیں۔ حرفِ مشدَّد کو ہم انگریزی میں ’’Double‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، جیسے AAوغیرہ۔ عربی میں ضِد کو ’’نقیض‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اَضداد کی مثال یہ ہے جیسے: آگ اور پانی، دن اور رات، نور اور ظلمت وغیرہ۔ منطق میں ہمیں پڑھایا جاتا ہے: ’’اجتماعِ ضِدّین یا اجتماعِ نقیضَین محال (ناممکن) ہے‘‘۔ لیکن اِس استحالہ (عدمِ امکان) کے لیے آٹھ شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے اور وہ فارسی کے اس شعر میں جمع کردی گئی ہیں:

در تناقُض ہشت وحدت شرط داں
وحدتِ موضوع و محمول و مکاں
وحدتِ شرط و اضافت، جزء و کُل
قوت و فعل است، در آخر زماں

اس شعر کو علمِ منطق کا طالب علم ہی پوری طرح سمجھ سکتا ہے، تاہم قارئین کو کم از کم اتنا بتانا ضروری ہے کہ اجتماعِ ضِدَّین تب محال ہے جب دو اَضداد ایک ہی زمان (Time) اور ایک ہی مکان (Space) میں جمع ہوں، ورنہ اگر زمان ومکان مختلف ہوں تو اجتماعِ ضِدّین محال نہیں ہے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی سیاسی کرامت سے 17جنوری کو لاہور میں سیاسی اَضداد کا اجتماع منعقد کردکھایا۔ لیکن چوں کہ وہ عربی علوم سے بھی آشنا ہیں، اس لیے انہوں نے یہ اہتمام کیا کہ ضِدَّین (پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف) کو ایک مکان پر تو جمع کیا، لیکن زمان (Time) الگ الگ رکھا، تاکہ محال لازم نہ آئے یا براہ راست تصادم کی صورت پیدا نہ ہو، سو وہ اس میں کامیاب رہے۔ میڈیا والے پاور شو کے فلاپ ہونے کو موضوعِ بحث بنائے ہوئے ہیں۔
یہ کہاوت تو سب نے سن رکھی ہے: ’’بادشاہِ وقت نے اہلِ شہر کو حکم دیا کہ رات کے پچھلے پہر ایک بڑے تالاب میں ہر شخص ایک ایک بالٹی دودھ ڈال دے۔ سب اہلِ شہر کی نیتوں میں کھوٹ بھرا ہوا تھا، سو ہر شخص نے سوچا کہ دودھ بھری بالٹی تو اور ڈال دیں گے، میں پانی کی بالٹی ڈالے دیتا ہوں۔ صبح اٹھ کر بادشاہ نے اس تالاب کو جاکر دیکھا، تو اس میں خالص پانی ہی پانی تھا‘‘۔ یہی ماجرا لاہور کے کل جماعتی احتجاجی اجتماع میں ہوا۔ سب نے سمجھا کہ بندے دوسرے لے آئیں گے، میں دولہا بن کر شریک ہوجاتا ہوں، اس ’’حُسنِ نیّت‘‘ کے سبب سب کی رسوائی ہوئی۔ ہمارے سادہ لوح اہلسنّت کے منعقدہ میلاد النبی ؐ کے جلوس یا جلسے میں کوئی سیاست دان یا حکمران آجائے تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ یہ ہمارا ’’میلادیہ بھائی‘‘ بن گیا ہے۔ اُن سادہ لوح لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سیاستدان یا حکمران تو عوامی اجتماع کے بھوکے اور پیاسے ہوتے ہیں۔ انہیں خود اتنا بڑا اجتماع کرنے میں لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں، سو اگر انہیں اللہ کی تقدیر سے یہ نعمتِ غیر مترقّبہ غیب سے ہاتھ آجائے، تو وہ علم ودانش اور عقیدت ومحبت کے موتی لٹانے میں کسی بخل سے کام نہیں لیتے، بلکہ مائیک کی جان بڑی مشکل سے چھوڑتے ہیں۔
لاہور کے احتجاجی جلسے میں بھی یہی ہوا۔ الفاظ کی حمایت کا چندہ دینے میں کسی نے بخل سے کام نہیں لیا، حتیٰ کہ جلسے کے وقت سے چند گھنٹے پہلے چودھری پرویز الٰہی صاحب پریس کانفرنس سے خطاب فرما رہے تھے: ’’ہمارے لوگ ہزاروں کی تعداد میں احتجاجی جلسے میں شریک ہوں گے‘‘، اس سے زیادہ بڑھ چڑھ کر اعلان جناب عمران خان نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا تھا: ’’ہم اپنی پوری قوت کے ساتھ طاہرالقادری صاحب کے احتجاج میں شریک ہوں گے‘‘۔ اور شیخ رشید صاحب تو آئے دن ڈاکٹر صاحب کی پیٹھ تھپکنے اور ہلّا شیری دینے کے لیے پہنچ جاتے تھے، شاید یہی وجہ ہے کہ جاتے جاتے وہ ڈھیر ہوگئے۔ غالباً پوری قوت سے اِن رہنماؤں کی مراد جوشِ خطابت تھا، حاضرین کی فراہمی نہیں تھا۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری ان سب کے اس باطنی مرض سے واقف تھے اور وہ گزشتہ دھرنے کے حوالے سے اس کا اظہار بہت پہلے اپنے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں ان الفاظ میں کرچکے تھے: ’’میرا سارا سرمایہ میرے اپنے کارکن تھے، کسی نے ساتھ نہیں دیا‘‘۔ البتہ چودھری شجاعت حسین نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا: ’’روٹی شوٹی کا انتظام ہم کرتے رہے‘‘۔ لگتا ہے علامہ طاہرالقادری ان سب کو سامنے کا منظر دکھا کر انہیں خالی کرسیوں کی صورت میں اُن کا حقیقی چہرہ دکھانا چاہتے تھے اور وہ اس میں سو فی صد کامیاب رہے، وہ اس پر جتنی بھی خوشی منائیں کم ہے، چناں چہ اپنی جماعت کے ذمے داران سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’ہمارا مقصد حاصل ہوگیا، کرسیوں کی گنتی کرنا ہمارے مخالفین کا مسئلہ ہے‘‘۔
میڈیا بار بار طعن کر رہا ہے کہ اسٹیج کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، لیکن پنڈال خالی تھا اور کرسیاں خالی تھیں۔ میڈیا پرسنز کی خدمت میں گزارش ہے کہ سیاست دان مجمعے میں دولہا بن کر شریک ہونا پسند کرتے ہیں، نہ کہ باراتی کی حیثیت سے، لہٰذا دولہوں والی سائیڈ یعنی اسٹیج بارونق تھا اور آپ کو اسی پر کفایت کرنی چاہیے تھی، بار بار خالی کرسیاں دکھا کر آپ نے ان سیاسی قائدین کا دل دکھایا، آپ کو اتنا سنگدل تو نہیں ہونا چاہیے، آپ کو رحمدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، کیمرے کا کمال دکھانا تو آپ کا کام ہے۔ آخر اسلام آباد دھرنے کے آخری ایام میں آپ روز سرِ شام جنابِ عمران خان کا پرجوش خطاب دکھاتے تھے، مگر سامنے کی خالی کرسیاں نہیں دکھاتے تھے، بلکہ کسی اور بارونق جلسے کی جھلکیاں وقفے وقفے سے دکھا دیتے تھے، الغرض یہ تو آپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، مگر اس بار آپ نے بھی ہاتھ کی صفائی دکھادی، علامہ اقبال نے کہا تھا:

تونے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا، سینۂ کائنات میں

اس شعر میں آپ ’’مجھ یا مَیں‘‘ سے اسٹیج پر موجود ساری قیادت اور غضب ڈھانے والے سے سنگدل اور بے رحم الیکٹرونک میڈیا مراد لے سکتے ہیں۔ شاید میڈیا والے یہ بتانا چاہتے ہوں کہ ہم جو آئے دن اکثرکیمرہ ٹیکنیک سے آپ کا لاکھوں کا مجمع دکھاتے ہیں اور آپ ہماری قدر نہیں کرتے، تو لیجیے! اپنی حقیقی تصویر دیکھیے اور شرم کا گھونٹ پی لیجیے۔ غالب نے ایک منظر بیان کیا ہے: ان کا محبوب، رقیبِ روسیاہ کی گلی سے لوٹ کے آرہا تھا کہ اُن کی اُس پر نظر پڑی اور وہ جھینپ سا گیا، اس کی شرمساری مٹانے کے لیے انور دہلوی نے کہا:

نہ ہم سمجھے، نہ آپ آئے کہیں سے
پسینہ پونچھیے، اپنی جبیں سے

ہم نے پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ جب کسی صاحبِ تخت وتاج کو گرانے کے لیے ساری اپوزیشن یکجا ہوجائے، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ اس امر پر متفق ہوگئے ہیں کہ اکیلے اکیلے اس واحد حریف کو پچھاڑنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے، اس سے حریف کا سیاسی قد کاٹھ خود ہی بڑھ جاتا ہے، اندر سے احساسِ شکست اسی کو کہتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جنابِ عمران خان اس زعم میں تھے کہ وہ اکیلے ہی سب کو بہا لے جائیں گے، مگر انہیں بادلِ ناخواستہ حقیقت پسند بنتے ہوئے بلند مَنار کی چوٹی سے نیچے اترنا پڑا اور اپنے اُن مخالفین کے ساتھ، جنہیں منہ لگانا وہ کسرِ شان سمجھتے تھے، ایک اسٹیج پر یکجا ہونا پڑا۔ اگر اُن کے ہاں سیاسی ساکھ کا جائزہ لینے اور نفع نقصان کا صحیح تخمینہ لگانے کی کوئی روایت ہے تو جب بھی وہ اس کی مشق کریں گے، انہیں اپنے خسارے کا اندازہ ہوجائے گا۔ جنابِ نعیم الحق نے تو برملا اعتراف کرلیا: ’’میں مانتا ہوں کہ 17جنوری کا شو فلاپ تھا اور چوں کہ ہمارے کارکنوں نے اسے اپنا شو سمجھا ہی نہیں، اس لیے نہیں آئے‘‘۔ اس کے برعکس ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا جارہا تھا کہ حاضرین میں سے پچھتر فی صد پی ٹی آئی کے کارکن تھے، پچیس فی صد پاکستان عوامی تحریک کے دور دراز سے آئے ہوئے یا لائے ہوئے کارکن تھے اور پیپلز پارٹی کی شرکت کثرتِ قائدین کی صورت میں تبرّک کے طور پر تھی، جو جناب زرداری کے ساتھ رخصت ہوگئے۔
منافقینِ مدینہ اور کفارِاہلِ کتاب کے باہمی اتحاد کے دعووں کی حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’کیا آپ نے ان منافقین کی طرف نہیں دیکھا جو اہلِ کتاب سے کفر اختیار کرنے والے اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں: اگر تمہیں (تمہاری بستی سے) نکال دیا گیا، تو ہم بھی ضرور تمہارے ساتھ نکل جائیں گے اور ہم تمہارے معاملے میں کبھی کسی کی اطاعت نہیں کریں گے اور اگر تم سے قتال کیا گیا تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بے شک یہ ضرور جھوٹے ہیں۔ اگر اُن کو نکالا گیا تو یہ اُن کے ساتھ نہیں نکلیں گے اور اگر اُن سے قتال کیا گیا تو یہ اُن کی مدد نہیں کریں گے اور اگر انہوں نے اُن کی مدد کی تو یہ ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے، پھر (کہیں سے) اُن کی مدد نہیں کی جائے گی۔ اے مسلمانو! اُن کے دلوں میں ضرور اللہ سے زیادہ تمہارا خوف ہے، اُس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ نہیں سمجھتے، وہ سب مل کر بھی تم سے قلع بند بستیوں یا فصیلوں کے پیچھے سے نہیں لڑ سکیں گے، اُن کی لڑائی آپس میں بہت سخت ہے، (اے مخاطَب!) تم اُن کو یکجا سمجھتے ہو، حالاں کہ اُن کے دل (آپس میں) پھٹے ہوئے ہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ یہ عقل سے کام نہیں لیتے، (الحشر: 11-14)‘‘۔
نوٹ: کسی تمثیل میں کُلّی مشابہت مراد نہیں ہوتی کہ کوئی اسے غلط معنی پہنائے کہ منافقین یا کفارِ اہل کتاب سے تشبیہ دیدی ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے، بلکہ فریقین کے درمیان مشابہت کی قدرِ مشترک بیان کرنا مقصود ہوتا ہے، لہٰذا نہ کوئی غلط مفہوم لے اور نہ کسی کو غلط فہمی میں مبتلا کرے۔ قرآنِ کریم میں تمثیلات اور تشبیہات کئی جگہ آئی ہیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نورِ اقدس کی تفہیم کے لیے بھی مثال بیان کی گئی ہے، حالاں کہ حقیقت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کا نہ کوئی مثل ہے اور نہ مثیل، وہ اپنی ذات وصفات میں یکتا اور بے مثل وبے مثال ہے۔