سیاسی معجزات!

299

ناصر حسنی

ہماری سیاست میں معجزات کا ذکر گاہے گاہے ہوتا رہتا ہے۔ نواب زادہ نصر اللہ خان کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر وہ کسی معجزے کے نتیجے میں وزیراعظم بن گئے تو ان کی وزارت سے بڑا معجزہ یہ ہوگا کہ وہ خود اپنی حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے اور اب عمران خان کا نااہلی سے بچ جانا بھی معجزہ سمجھا جارہا ہے۔ اس پس منظر میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا اپنی ہی حکومت کے خلاف تحریک عدل چلانے کی تیاری کرنا معجزہ ہی کہلائے گا۔ یوں تو ان کا نااہل ہونا بھی معجزہ ہی تھا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک عدل نواز لیگ کے لیے نقصان کا باعث ہوگی مگر جو لوگ عوام کی عدالتی مشکلات اور تاخیری حربوں سے واقف ہیں اس تبصرے کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کیوں کہ عدلیہ قوم کو انصاف فراہم کرنے میں افسوس ناک حد تک ناکام رہی ہے۔ عزت مآب چیف جسٹس پاکستان کا فرمان ہے کہ عدالتوں سے سیاسی کچرا نکلے تو کسی خیر دین اور گل محمد کے مقدمات پر توجہ دیں۔ سوال یہ ہے کہ عدلیہ سیاسی گند میں ہاتھ ہی کیوں ڈالتی ہے۔ آخر پارلیمنٹ کس مرض کی دوا ہے؟۔ پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم کا کہنا ہے کہ سیاسی مقدمات بالآخر پارلیمنٹ ہی میں آئیں گے۔ سیاست دانوں نے شاعر کے اس خیال کو غلط ثابت کردیا ہے کہ خلق خدا بولنے کی اس قدر شوقین ہے کہ ہر وقت فسانے سنانے کے لیے بے چین رہتی ہے مگر اب خلق خدا سنانے کو فسانے نہیں مانگتی کھانے کو روٹی مانگتی ہے اور سیاست دان کہنے کو فسانے مانگتے ہیں۔ ان دنوں سیاست دانوں کے پاس کہنے کو بہت سے فسانے ہیں شریف برادران عرب کیوں گئے؟ کیا کرنے گئے تھے؟ اس ضمن میں سیاست دانوں کے پاس کہنے کے لیے بہت فسانے ہیں۔ بہت سی کہانیاں ہیں مگر سبھی اپنی اپنی ڈفلی پر اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری صاحب کا کہنا ہے کہ شریف برادران سعودی عرب میں کیا کھچڑی پکا رہے ہیں وہ اس سے بے خبر ہیں البتہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ پاکستان میں جو بریانی پک رہی ہے اس کی خوشبو سے سارا ملک مہک رہا ہے۔ بریانی کی مہک تو غیر ملکی بھی محسوس کررہے ہیں مگر سبھی کو یہ یقین ہے کہ یہ خوشبو سندھی بریانی کی ہرگز! ہرگز نہیں۔ زرداری صاحب نے یہ نوید بھی سنائی ہے کہ قوم کو نواب زادہ نصر اللہ خان کی صورت میں مولانا طاہر القادری مل گئے ہیں مگر یہ ملن قبرستان سے باہر نہیں ہوسکتا اور پاکستانی سیاست دان قبرستان سے بہت ڈرتے ہیں۔ زرداری صاحب اس خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ قادری صاحب نواب زادہ نصر اللہ خان کے خلا کو پُر کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے یہ درست ہے کہ نواب زادہ نصر اللہ خان مکالمے کے ماہر سمجھے جاتے تھے مگر سوال یہ ہے کہ ان کے مکالمے ڈبہ بند فلم کے مکالمے کیوں ثابت ہوتے تھے؟۔ نواب زادہ نصر اللہ خان نے اقلیم سیاست کی سیاحی میں عمر عزیز گزار دی مگر سیاست کے ابن بطوطہ نہ بن سکے۔ کیوں؟ کیوں؟۔
میاں برادران کا معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا مگر فسانہ بازوں کے دل میں ٹھنڈک نہ پڑ سکی۔ سو، وہ عمران خان کی تیسری شادی کا فسانہ سنانے لگے۔ فسانہ دل چسپ ہے عمران خان بھی چسکے لے رہے ہیں،
تیسری شادی کے سوال کو انشائیہ سمجھ کر زیر لب تبسم کا مظاہرہ کرتے ہیں، تائید کرتے ہیں نہ تردید کرتے ہیں۔ عمران خان کی تیسری شادی کے فسانے میں دل چسپ باب یہ ہے کہ فسانے باز بتارہے ہیں کہ ان کے پیرومرشد نے کھنڈلی دیکھ کر بتایا تھا کہ عمران خان ان کی نامزد خاتون سے شادی کرلیں تو وزارت عظمیٰ بھی نکاح میں آجائے گی۔ ممکن ہے اس فسانے میں کچھ نہ کچھ حقیقت ہو یا پھر عمران خان کو ’’کچھ کچھ‘‘ ہوگیا ہو مگر ہم آج بھی اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ جمائما خان سے مشروط ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ شادی کا پیغام بھیجنا جرم نہیں، واقعی! یہ نیک کام ہے اور کوئی بھی نیک کام جرم نہیں ہوتا مگر صوبائی وزیر قانون ثنا اللہ کا یہ کہنا بھی قابل غور ہے کہ جو شخص مرشد کے حضور بیٹھنے کے آداب سے واقف نہ ہو وہ مسند شاہی پر بیٹھنے کا حق کیسے ادا کرسکتا ہے۔ مرشد کے روبرو آنکھیں نیچی اور سر جھکا کر بیٹھا جاتا ہے مگر یہ حضرت تو حق دعا کے بجائے حق زوجیت طلب کر بیٹھے۔