بابا رحمتے 

346

بابا الف کے قلم سے

بابا رحمتے شام کی سیر کے لیے آج کچھ جلد ہی گھر سے نکل آئے تھے۔ یہ ایک کمرشل علاقہ تھا۔ بابا رحمتے ریٹائرڈ جج تھے۔ ہوا خوری کے لیے وہ کسی باغ کا رخ نہیں کرتے تھے بلکہ آہستہ آہستہ لوگوں کے چہرے دیکھتے بازار سے گزرتے تھے۔ لوگوں کے چہرے اور روّیے ہی ان کی سیرگاہ تھے۔ عصر کا وقت تھا لیکن نہ جانے کیوں علاقے میں بہت خاموشی تھی۔ کھلی دکانیں اور گھروں کی کھلی کھڑکیاں اداس نظروں سے راستوں کو دیکھ رہی تھیں جو سنسان پڑے تھے۔ دور دور تک گاہک تو کیا کوئی فقیر بھی نظر نہیں آرہا تھا۔
بابا رحمتے بازار سے نکل کر جس طرف آئے وہ علاقہ، علاقہ نہیں ایک بڑی سی ورکشاپ تھا۔ جابجا بڑے بڑے ٹرک اور کنٹینر کھڑے تھے جو مرمت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ میلے کچیلے مستری انہیں ٹھونک پیٹ رہے تھے۔ آئل میں سنے اور چپچپاتے ہوئے سیاہ چہرے والے مستری جب بابا رحمتے کو آتا دیکھتے تو بڑے احترام سے انہیں سلام کرتے۔ بابا رحمتے سلام کا جواب دیتے، ان کا حال احوال پوچھتے نرم روی سے گزرتے بڑی محویت سے ان کا کام دیکھتے تھے۔ آج بابا رحمتے وہاں سے گزرے تو ایک بڑے سے کنٹینرکے پاس بھیڑ جمع تھی۔ وہ بھیڑ کے پاس پہنچے۔ گردن اونچی کرکے انہوں نے دیکھا کہ بالوں سے بھرے ہوئے بازو والے ایک مستری کی شلوار پھٹی ہوئی تھی اور پنڈلی پر زخم سے خون رس رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک موٹی سی سلاخ تھی اور وہ اس کتے کو مارنے کے درپے تھا جس نے اسے کاٹا تھا۔ ایک پولیس والا زخمی مستری کو کتے کے مارنے سے روک رہے تھا۔ بابا رحمتے جانتے تھے کہ یہ علاقہ آوارہ کتوں سے بھرا ہوا ہے جو آئے دن لوگوں کو کاٹتے رہتے تھے۔ لیکن یہ کتا جس نے مستری کو کاٹا تھا آوارہ نہیں تھا۔ اس کے گلے میں پٹا ڈلا ہوا تھا۔ یہ ایک چھوٹی نسل کا سفید کتا تھا جو خوف، بے بسی اور رحم سے مجمع کو دیکھ رہا تھا۔ پولیس والے نے اس کی زنجیر پکڑی ہوئی تھی۔ سگ گزیدہ مستری بڑے غصے سے کتے پر جھپٹتا ہوا پولیس والے سے الجھا ہوا تھا ’’کون سے قانون میں لکھا ہے میں اس کتے کو نہیں مار سکتا۔ اس نے میری پنڈلی میں کاٹا ہے میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا‘‘۔
’’یہ کیا ہنگامہ ہورہا ہے‘‘ بابا رحمتے نے مجمع کو چیرتے آگے بڑھتے ہوئے پوچھا۔ بابا رحمتے کو سب مستری احترام سے جج صاحب کہتے تھے۔ کوئی ان کا نام نہیں لیتا تھا۔ زخمی مستری بابا رحمتے کو دیکھ کر آگے بڑھا ’’جج صاحب! اس کتے نے مجھے کاٹا ہے۔ قانون کہتا ہے ایسے خونیں کتوں کو مار دینا چاہیے۔ اتنا قنون تو میں نے بھی پڑھا ہے لیکن یہ پولیس والا کہتا ہے یہ آوارہ نہیں پالتو کتا ہے۔ اگر پالتو کتا ہے تو مجھے اس کے مالک سے ہرجانہ دلواؤ۔ میرا آج کا دن بھی خالی گیا۔ جس بری طرح اس کتے نے میری ٹانگ بھنبھوڑی ہے لگتا ہے مجھے کم ازکم ایک ہفتہ گھر پر آرام کرنا پڑے گا۔ آپ کو پتا ہے آج کل علاج کتنا مہنگا ہے۔ ڈاکٹر نہیں ہسپتالوں میں قسائی بیٹھے ہیں قسائی۔‘‘
جس وقت مستری جج صاحب کو صورت حال بتا رہا تھا بتدریج اس کی آواز میں رقت آتی جارہی تھی۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا رہی تھیں۔ جج صاحب کو مستری کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ انہیں اُن لوگوں پر بہت غصہ آیا جو ایسے کتوں کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سبق سکھانا لازم ہے۔ اس کتے کے مالک سے غریب مستری کو بھاری معاوضہ دلوانا ضروری ہے۔ اگر اس نے پیسے دینے سے نکار کیا تو میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔ اسے عدالت میں گھسیٹوں گا، عدالتوں کے اتنے چکر لگواؤں گا کہ آئندہ اس کی نسلیں بھی کتوں کو کھلا نہیں چھوڑیں گی۔
جج صاحب نے پولیس والے کی طرف دیکھا اور کہا ’’پتا کرو یہ کتا کس کا ہے۔ اگر یہ کتا پاگل ہے تو ہمیں اسے فوراً مار دینا چاہیے‘‘۔ پولیس والا جج صاحب کو دیکھ کر پہلے ہی مودب ہوگیا تھا۔ اس نے آہستہ سے’’ جی سر‘‘ کہا۔ اتنی دیر میں جج صاحب مجمع سے مخاطب ہوچکے تھے ’’کسی کو معلوم ہے یہ کتا کس کا ہے‘‘۔ ’’یہ کتا میرا خیال ہے جنرل صاحب کا ہے جو سامنے والے بنگلے میں رہتے ہیں۔‘‘ مجمع سے ایک آواز آئی۔
’’جنرل صاحب کا؟‘‘۔۔ اچھا۔۔ ہوں۔۔ کانسٹبل ذرا میرا کوٹ تو اتارنا۔ جب گھر سے چلا تھا تو سردی محسوس ہورہی تھی لیکن اب نہ جانے کیوں گرمی لگ رہی ہے۔ ’’ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی اس چھوٹے کیوٹ سے کتے نے تمہیں کاٹا کیسے؟‘‘ جج صاحب مستری کی طرف مڑے ’’تم اتنے لحیم شحیم آدمی ہو اور یہ کتا اتنا چھوٹا سا ہے۔ تم نے اسے اپنے پاؤں تک پہنچنے کیسے دیا۔ تم مستری ہو کوئی اوزار دکھا کر اسے بھگا بھی سکتے تھے۔‘‘
’’جج صاحب! اس نے کتے کو پکڑنے کی کوشش کی تھی۔ یہ اکثر کتوں کو پتھر مارتا رہتا ہے۔ کبھی کبھار تو کتوں پر اپنا جلتا سگریٹ بھی داغ دیتا ہے‘‘۔ مجمع سے ایک اور آواز آئی۔ آواز میں شرارت تھی۔
یہ بات سن کر جج صاحب نے غصے سے مستری کو دیکھا ’’اف میرے خدا معصوم جانوروں پر اتنا ظلم! تم جیسے ظالم لوگوں کو تو بے زبان جانوروں کو ستانے کے جرم میں جیل میں بند کردینا چاہیے۔‘‘
اتنے میں کانسٹیبل جج صاحب کے پاس آیا ’’جناب یہ کتا جنرل صاحب کا نہیں ہے۔ ان کے پاس تو سارے کتے شکاری ہیں۔‘‘
’’تمہیں یقین ہے‘‘ جج صاحب نے پوچھا ’’جی جناب! مجھے اچھی طرح یقین ہے۔‘‘ کانسٹیبل نے جواب دیا۔
’’ہوں۔ ویسے میں خود بھی جانتا ہوں۔ جنرل صاحب کتے پالنے کے شوقین ہیں۔ ان کے پاس ایک سے ایک مہنگا کتا ہے۔ یہ تو کسی مریل سی نسل کا معلوم ہوتا ہے۔ جنرل صاحب اتنا گھٹیا کتا کیوں رکھنے لگے۔‘‘
’’جناب مجھے لگتا ہے یہ کتا پرائم منسٹرصاحب کا ہے۔‘‘ کانسٹیبل منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔
’’یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو‘‘۔ جج صاحب نے حیرت سے پوچھا؟
’’جناب آج وزیراعظم صاحب اپنے چھوٹے بھائی سے ملنے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ میں ایک مرتبہ ان کی سیکورٹی ڈیوٹی پر تھا جب میں نے ان کے پاس ایسا کتا دیکھا تھا۔ ممکن ہے آج بھی یہ کتا ان کے ساتھ آیا ہو اور پھر دیکھیے اس کی گردن میں پٹا بھی کتنا قیمتی ہے۔ وزیر اعظم صاحب کے کتوں کی گردن میں ایسے پٹے میں نے دیکھے تھے۔‘‘ کانسٹیبل نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
اب جج صاحب مستری کی طرف مڑے ’’دیکھو مستری تمہارے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ اس معاملے کو ایسے نہیں چھوڑا جاسکتا۔ یہ لوگ عوام سے ووٹ لیتے ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں پھر عوام کی مددکرنے، ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان پر اپنے کتے چھوڑ دیتے ہیں۔ تم کانسٹیبل کے ساتھ تھانے جاؤ اپنی رپورٹ لکھواؤ۔ میں خود تمہارا مقدمہ لڑوں گا۔ ایسے نااہل شخص کو وزیر اعظم رہنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘