زینب کے قاتل کی گرفتاری، بڑی کامیابی

385

پنجاب پولیس کی پیہم تگ و دو کے بعد آخر کار معصوم زینب کا قاتل پکڑا گیا جس نے، اطلاعات کے مطابق اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔ اس کامیابی پر پنجاب پولیس مبارک باد کی مستحق ہے۔ بچی کا قاتل عمران ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے پکڑا گیا۔ اس عرصے میں وہ بھیس بدل کر گھومتا رہا اور زینب کے قتل پر احتجاج میں بھی پیش پیش رہا۔ اسے پاکپتن سے پکڑا گیا ہے۔ پولیس نے اس کے بھائی اور بہنوں کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کی بہنیں بھی بھائی کی حرکتوں میں ملوث ہوں۔ مقتولہ زینب کی بہن اور دیگر طبقات کی طرف سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ قاتل عمران کو سنگسار کیا جائے۔ لیکن ایسی سزائیں پاکستان کے قانون میں نہیں ہیں۔ 24سالہ عمران پر مزید 7لڑکیوں سے زیادتی اور قتل کا الزام بھی ہے جس کی بنا پر اسے سیریل کلر کہا جارہا ہے۔ پولیس نے عمران کو روپوشی میں مدد دینے کے الزام میں 5سہولت کار بھی دھر لیے ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق 7سالہ زینب کا قاتل بچی کو والدین سے ملوانے کا جھانسہ دے کر لے گیا۔ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ بچوں کو کوئی چیز، مٹھائی یا کھلونا دلوانے کے بہانے لے جایا جاتا ہے۔ چنانچہ والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بار بار سمجھائیں کہ ایسے دھوکے میں نہ آئیں خواہ وہ کوئی پڑوسی ہی کیوں نہ ہو۔ اہل محلہ کو بھی محلے کے بچوں پر نظر رکھنی چاہیے کہ کس کے ساتھ جارہے ہیں اور کوئی ایسا تو نہیں جو بار بار محلے کا چکر لگا رہا ہو۔ زینب کا قتل سیاسی مسئلہ بنتا جارہا تھا اور حکومت پنجاب پر زد پڑ رہی تھی۔ لیکن دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے الزام لگاتے ہوئے یہ تحقیق نہیں کرتے کہ خود ان کے صوبوں میں کیا صورت حال ہے۔ یہ طرز عمل خطرناک ہے۔ ایسی بھیانک واردات خواہ کسی صوبے اور کسی شہر میں ہو، ایک دوسرے پر طنز کے تیر برسانے کے بجائے سب کو ایسے درندوں کے خلاف یک زبان ہو جانا چاہیے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں ایک بچی عاصمہ کے قتل کو 12دن گزرچکے ہیں لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ عمران خان حکومت پنجاب کو طعنے دے رہے تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اس کامیابی کے بعد عاصمہ کے قتل کا سراغ لگانے کے لیے تعاون کی پیش کش کی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ محض عمران خان کا جواب ہو لیکن ایسے معاملات میں تو پورے پاکستان کو قاتلوں کے خلاف متحد ہو کر کوشش کرنی چاہیے۔ اگر خیبر پختونخوا کی حکومت اور پولیس پنجاب پولیس کے تجربات سے فائدہ اٹھالے تو اس میں کسی کی مونچھ نیچی نہیں ہوگی۔ زینب کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلے گا اور شہباز شریف نے کہا ہے کہ میرا بس چلے تو اس بھیڑیے کو چوک پر لٹکا کر پھانسی دے دوں۔ اللہ کا حکم بھی یہی ہے کہ نہ صرف سخت سزا دی جائے بلکہ سزا پر عمل کو دیکھنے والے بھی موجود ہوں تاکہ عبرت ہو۔ سینیٹ کمیٹی نے بھی زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسا ہی ہونا چاہیے۔