راؤ انوار کڑی گرفت میں

549

بدنام ترین سرکاری ٹارگٹ کلر یا انکاؤنٹر اسپیشلسٹ معطل ایس ایس پی راؤ انوار اب بھی اپنی بے گناہی پر مصر ہے اور نقیب اللہ محسود کے قتل کے ذمے داری اپنے ماتحتوں پر ڈال رہا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ جعلی پولیس مقابلوں میں پوری ٹیم ملوث ہوتی ہے لیکن ذمے داری حکم دینے والے پر عاید ہوتی ہے خواہ وہ حکم دے کر موقع سے غائب ہوگیا ہو۔ راؤ انوار اگر اپنے آپ کو بے گناہ قرار دے رہے ہیں تو ملک سے فرار ہونے کی کوشش کیوں کی تھی۔ پولیس کی طویل ملازمت کے دوران میں وہ بھی جانتے ہیں کہ فرار ہونا یا کوشش کرنا مجرم ہونے کا ثبوت ہوتا ہے۔ انہیں اگر اپنے بیوی بچوں سے ملنے ہی کے لیے دبئی جانا ہوتاتو وہ کراچی ائرپورٹ سے جاتے جہاں سے وہ درجنوں بار جا چکے ہیں۔ لیکن رات گئے اور اپنے حلیے میں تبدیلی کر کے اسلام آباد ائرپورٹ سے نکلنے کی کوشش ان کے مجرم ہونے کا وہ ثبوت ہے جو انہوں نے خود فراہم کردیا ہے۔ اگر ایف آئی اے چوکس نہ ہوتی تو وہ طیارے میں بیٹھ چکے تھے۔ ایف آئی اے کے حکام نے انہیں طیارے سے اتارا تاہم انہیں گرفتار نہیں کیا گیا کیوں کہ اس وقت تک راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیا تھا۔ خبروں کے مطابق انہوں نے سندھ حکومت کا جاری کردہ این او سی ( نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ یا کوئی اعتراض نہیں) دکھایا۔ وہ بھی جعلی نکلا۔ لیکن جن کے نام سے یہ این او سی جاری ہوا ان سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔ کچھ اخبارات نے سندھ حکومت کے اس این او سی کا عکس بھی شائع کردیا ہے۔ یہ این او سی راؤ انوار نے خود تو نہیں بنایا ہوگا جس جس نے معاونت کی ان کو بھی پکڑا جائے بلکہ خود راؤ انوار سے پوچھا جائے کہ یہ سرٹیفکیٹ اس نے کیسے حاصل کیا۔ سندھ حکومت تو یہ کہہ کر مطمئن ہوگئی کہ جو کچھ ہوا اسلام آباد میں ہوا جو سندھ حکومت کے اختیار سے باہر ہے۔ اب تو تجزیہ نگار اور بعض سیاست دان کھل کر کہنے لگے ہیں کہ راؤ انوار کی پشت پر آصف زرداری ہیں اور راؤ انوار نے ان کے لیے بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کے ریاض ملک کا نام بھی آرہا ہے۔ 9سال سے ایک ہی جگہ تعیناتی اور متعدد بار جعلی پولیس مقابلوں کا الزام لگنے کے باوجود راؤ انوار کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے سے یہ تو ظاہر ہے کہ اس کی پشت پر کوئی طاقت ور ہاتھ رہا ہے۔حکومت سندھ کے بعض وزرا فیئر ٹرائل کا مطالبہ کر کے اپنی وابستگی بھی ظاہر کررہے ہیں ۔ وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال کا کہنا ہے کہ ’’ آصف زرداری سے تعلق کا مطلب قتل کا لائسنس دینا نہیں اور سندھ حکومت کی طرف سے راؤ انوار کو بچانے کا تاثر درست نہیں ہے ‘‘۔ وزیر داخلہ سندھ نے یہ اعتراف تو کیا کہ راؤ انوار کا تعلق آصف زرداری سے تھا۔ اتنے مضبوط تعلق کے بعد کسی کو قتل کا لائسنس لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک میٹرک پاس اے ایس آئی بغیر کسی کی معاونت کے ایس ایس پی کے منصب تک یونہی تو نہیں پہنچ گیا ہوگا۔ بلاول زرداری کے ماموں اور بے نظیر کے بھائی مرتضیٰ بھٹو بھی پولیس کے ہاتھوں مارے گئے اور ان کی لاش کے سرہانے راؤ انوار کی تصویر آج بھی محفوظ ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کو قتل کرانے کا الزام آصف زرداری پر لگایا گیا تھا۔ تاہم تحقیقاتی ایجنسیوں نے اس قتل میں راؤانوار کے کردار کی تحقیق نہیں کی۔ اس وقت آصف زرداری کی اہلیہ وزیر اعظم تھیں اور بھائی کے قتل میں شوہر کے ملوث ہونے کے ذکر پر برہم ہو جاتی تھیں۔ راؤ انوار نے بے نظیر ائرپورٹ ، اسلام آباد پر روکے جانے کے بعد بڑے طنطنے سے کہاکہ مجھے دبئی جانے سے کون روک سکتا ہے، میں جب چاہوں جاسکتا ہوں، میرے بیوی بچے وہاں ہیں ۔ وہ یہ بھول گئے کہ یہ کراچی کا ائرپورٹ نہیں اور اب وہ ایس ایس پی نہیں رہے۔ راؤ انوار کے پاس بھی دبئی کا اقامہ ہے اور وہاں بڑی سرمایہ کاری بھی کررکھی ہے۔ نقیب اللہ محسود کو اغوا کرنے کے کئی دن بعد پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ اگر راؤ انوار پولیس مقابلے میں شریک نہیں تھے تو کیاانہیں نقیب اللہ کے اغوا کا علم بھی نہیں تھا؟ اگر وہ اپنے ساتھیوں کی حرکتوں سے اتنے ہی بے خبر تھے تو انہیں ایس پی کے منصب پر رہنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ راؤ انوار کو یاد نہیں رہا ہوگا کہ نقیب اللہ کی شہادت کے بعد انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ سو فیصد دہشت گرد تھا اور اس پر انہوں نے متعدد الزامات بھی عاید کیے تھے۔ اب کہتے ہیں کہ مجھے کچھ معلوم ہی نہیں ۔ بہرحال اب راؤ انوار پر قتل اور دہشت گردی کے مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ تاہم اطلاعات کے مطابق وہ کسی نامعلوم جگہ پر روپوش ہیں لیکن جلد ہی گرفت میں آجائیں گے۔ نقیب اللہ کے ساتھ جو دیگر 3افراد مارے گئے ان کے کوائف بھی سامنے آچکے ہیں اور ممکن ہے کہ وہ بھی بے گناہ نکلیں۔ نقیب اللہ محسود کے قتل کو طویل عرصے تک عدالتوں میں نہ لٹکایا جائے اور اس کا فیصلہ جلد ہونا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کئی برس بعد اسے بے گناہ قرار دے دیا جائے۔