سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا راشاد گرامی ہے کہ پانچ سو ووٹ لے کر صوبائی اسمبلی کا رکن بننے والے کو بلوچستان کا وزیراعلیٰ بنانا جمہوریت اور قوم کے ساتھ ایک بھیانک مذاق ہے۔ میاں صاحب! اس بھیانک مذاق کے موجد اعلیٰ بلکہ مورث اعلیٰ تو آپ کی ذات مبارک ہے۔ آپ نے لیبر سیٹ پر کونسلر بننے والوں کو میئر بنادیا کیوں کہ وہ آپ کے منظور نظر تھے۔ حالات و قرائن بتا رہے ہیں کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کا ہوّا کھڑا کرکے استعفا لینے کی سازش آپ کے ذہن کی پیداوار ہے کیوں کہ آپ تحریک انصاف کا راستہ روکنا چاہتے ہیں، آپ کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ متوقع الیکشن کے بعد اگر پنجاب میں بھی آپ کی حکومت بنی تو عمران خان آپ کے لیے درد سر بن جائیں گے، عمران خان (ق) لیگ سے مل کر آپ کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کردیں گے۔ سو، اس امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ آپ نے چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی سے مسلم لیگ کے نام پر تعاون کی اپیل کی ہوگی اور اپیل کو مسترد کرنا ہماری روایت نہیں حتیٰ کہ عدالتیں بھی قوم سے اپیل اپیل کھیلتی رہتی ہیں۔ آپ نے (ق) لیگ کو بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کا چارا ڈالا ہوگا مگر اس نے سر ہلانے کے ساتھ ساتھ ’’مٹی پانے‘‘ کے بجائے مٹی اڑانا شروع کردیا ہوگا کیوں کہ آپ ایک بار پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیش کش کرکے مکر چکے ہیں۔ سو، چودھری برادران نے دوسری بار ڈسے جانے سے صاف انکار کردیا ہوگا اور آپ کو یقین دلانے کے لیے مجبوراً بلوچستان میں جمہوری عمل کے نام پر ڈراما کرنا پڑا۔ اس ڈرامے کی سب سے پُرلطف بلکہ پُر مزاح بات یہ ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری صاحب نے اپنا لنچ تل ڈالا اور اب بڑے دھڑلے سے فرما رہے ہیں کہ وہ جب چاہیں اسلام آباد کو بلوچستان بنا سکتے ہیں۔
مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے بلوچستان میں (ق) لیگ کو وزارت علیا ملنے پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ بہت بے نیاز ہے، انتہائی رحیم اور کریم ہے وہ جب کسی کو فتح سے ہم کنار کرتا ہے تو تعداد نہیں دیکھتا بلکہ نیت دیکھتا ہے، نیت کا خلوص دیکھتا ہے، وہ بندے نہیں دیکھتا بندوں کی نیت دیکھتا ہے۔ پانچ ارکان اسمبلی رکھنے والی جماعت کو بلوچستان کی وزارت علیا ملنے پر تنقید کرنے والے ارکان اسمبلی کی توہین کررہے ہیں، آئین اور قانون اور جمہوریت ارکان اسمبلی کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ کسی بھی رکن اسمبلی کو اپنا قائد منتخب کرسکتے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی نے دعویٰ کیا ہے کہ متوقع الیکشن کے بعد بھی بلوچستان کا وزیر اعلیٰ (ق) لیگ کا ہوگا۔ اسمبلیوں کے تحلیل ہونے اور سینیٹ کے انتخابات سے متعلق جو افواہوں کا ہانکا لگایا جارہا ہے یہ ہانکنے کے سوا کچھ نہیں، جمہوریت اور قوم دشمنوں کی خواہش کہ انتخابات سے قبل صوبائی اسمبلیاں توڑ دی جائیں تا کہ سینیٹ کے انتخابات نہ ہوسکیں، یہ ساری باتیں شکست کے خوف سے کی جارہی ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لانے اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے مستعفی ہونے سے آصف علی زرداری کا کوئی تعلق نہیں کیوں کہ اس معاملے میں ان سے کوئی رابطہ ہی نہیں کیا گیا یہ سب اللہ کی کرم نوازی ہے اس کی بندہ پروری ہے۔
شیخ رشید اور سیاسی مبصرین کے انکشاف میں حقیقت کا رنگ چھلکنے لگا ہے کہ بہت سے ارکان اسمبلی (ق) لیگ اور تحریک انصاف کی چھتری پر بیٹھنے کے لیے پَر تول رہے ہیں۔ (ق) لیگ چھوڑ کر (ن) لیگ میں شمولیت کرنے والوں کا (ق) لیگ کی جانب دوڑنا حیرت کی بات نہیں کیوں کہ انہیں اس حقیقت کا احساس ہونے لگا ہے کہ میاں نواز شریف کی موجودگی میں انہیں اسمبلی کی رکنیت تو مل سکتی ہے مگر جائز مقام نہیں مل سکتا۔ یہی مسئلہ تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔ میاں نواز شریف کا چودھری برادران سے رابطہ خوش آئند اقدام ہے اگر میاں صاحب اپنے اقتدار کو بادشاہت سمجھنے کے بجائے قومی مفادات اور ملکی تحفظات کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ مسلم لیگ آج بھی مقبول ترین پارٹی ہے، آج بھی مسلم لیگ کا ووٹ بینک سب سے زیادہ ہے، جب بھی کسی پارٹی سے ون ٹو ون مقابلہ ہوا، مسلم لیگ کا امیدوار ہی کامیاب ہوا ہے، مسلم لیگی دھڑے متحد ہوجائیں تو قوم کی بگڑی تقدیر سنور سکتی ہے مگر میاں نواز شریف کے مزاج میں موج زن شاہی جوار بھاٹا سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ خدا کرے اس بار قوم کی توقع خوش گمانی کا روپ دھارنے سے محفوظ رہے۔