کیا شبِ ستم تمام ہوئی؟ 

350

امریکا نے ڈھائی عشرے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ڈھول پیٹنے کے بعد اب اپنی دفاعی حکمت عملی میں تبدیلی کا اعلان کیا ہے۔ امریکی سیکرٹری دفاع جیمز میٹس نے اس پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکی پالیسی کا محور نہیں رہی بلکہ امریکا کی سیکورٹی پالیسی کا محور روس اور چین جیسی طاقتوں کے ساتھ معاملہ ہے۔ روس نے امریکا کی اس پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا اپنی قیادت کو مذاکرات کے بجائے طاقت سے مسلط کرنا چاہتا ہے چین نے بھی اسے سردجنگ کی ذہنیت قرار دیا ہے۔ سردجنگ کے خاتمے کے بعد امریکی دانشور پروفیسر سیموئیل پی ہنٹنگٹن نے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا۔ اپنی کتاب Calash of Civilizations میں انہوں نے کمیونسٹ سوویت یونین کا چیلنج ختم ہونے کے بعد مغرب کو درپیش ممکنہ چیلنجز کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس تصور کے تحت کمیونزم کے زوال کے بعد اسلامی تہذیب اور نظریہ مغرب کے لیے سب سے بڑا وقتی چیلنج تھا۔ پروفیسر کا یہ نظریہ پیش ہونے سے پہلے ہی امریکی پالیسی سازوں کا سارا رخ مسلمانوں اور اسلامی تہذیب کی طرف مڑ گیا تھا اور خلیج میں ایک جنگ کے بعد تیل کی سیاست کا کھیل شروع ہو چکا تھا۔ مسلمان دنیا کو ریت کی ایک بوری بنا کر لہو گرم رکھنے کے لیے مکے بازی کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ مجموعی طور پر حکومتوں، او آئی سی اور عرب لیگ جیسی تنظیموں کی صورت میں مسلمان دنیا نے سرد جنگ کے آخری معرکے میں امریکا ہی کا ساتھ دیا۔ سوائے چند ریڈیکل عرب حکمرانوں کے اکثریت امریکا کے ساتھ کھڑی رہی۔ اس کے باجود منظر بدلا تو مسلمان ہی اس تبدیلی کے قتیل اور مظلوم قرار پائے۔ ایسی پالیسیاں اختیار کی گئیں جن کے ردعمل میں مسلمان معاشروں میں انتہاپسندانہ اور مزاحمانہ رجحانات غالب آنے لگے۔ در پردہ مغربی حلقوں نے اس ردعمل کو باقاعدہ مسلح تصادم کی شکل دینا شروع کی۔
سوویت افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں دوبڑی مزاحمتی جماعتوں کی مستحکم حکومت قائم ہونے کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ جس کے نتیجے میں افغانستان خانہ جنگی کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ الجزائر میں عباس مدنی کی قیادت میں اسلامک فرنٹ نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی مگر اس کامیابی کو طاقت سے کچل ڈالنے کے عمل کی سرپرستی کی گئی جس سے عرب اور افریقی ملکوں میں جمہوری طرز سیاست اور کامیابیوں سے نوجوانوں کا اعتماد اُٹھ گیا اور نوجوان مسلح جدوجہد کی طرف مائل ہونے لگے۔ مصر میں اخوان المسلمون کی مسلح جدوجہد کے برعکس الجزائر کے عوام نے جمہوریت کے ذریعے کامیابی کا خواب دیکھنا شرو ع کیا تھا اور یہ عالم عرب میں ایک بڑی تبدیلی کی بنیاد بن سکتا تھا مگر الجزائر کے عوام کی امید کو کچل دیا گیا۔
مغرب میں مسلمانوں پر یہ الزام عائد کیا جارہا تھا کہ وہ جمہوریت کو پسند نہیں کرتے کیوں کہ ان کی گھٹی میں خلافت اور اسلامی حکومت کا تصور ہے۔ مغرب کے اس فلسفے کو غلط ثابت کرنے کے لیے جب مسلمان معاشروں نے جمہوریت کو بطور نظام حکومت اپنایا اس کے بعد عراق اور کویت کے محاذ کھولے گئے۔ صدام حسین کو ہلہ شیری دے کر کویت پر چڑھائی پر مجبور کیا گیا اور پھر صدام کی سرکوبی کے لیے آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم شروع کیا گیا۔ امریکیوں نے ایک نیو ورلڈ آرڈر کا نعرہ لگایا جس میں دنیا کی واحد اور مطلق طاقت امریکا کا تصور غالب تھا۔ اسی دوران نائن الیون کا واقعہ ہوا۔ ٹوئن ٹاورز کا ملبہ مسلم دنیا پر ڈال دیا گیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلمانوں کے مضبوط، مستحکم اور معاشی آسودہ ممالک کے بخیے ادھیڑنے کا عمل شروع ہوا۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے مسلمان ملکوں کو ایٹمی طاقت کے حصول سے ہر ممکن طریقے سے روکنے اور ان ملکوں میں پرانے حکمرانوں کا تختہ اُلٹ کر وہاں نئے انداز کی جمہوریت کا سودا فروخت کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ پاکستان نے اپنی ایٹمی طاقت کے دفاع کا راستہ اپنا کر مزاحمت کی تو عرب دنیا میں جمہوریت کا سودا فروخت کرنے کی کوشش اس بنا پر مخمصوں کی دھند میں لپٹ کر رہ گئی کہ وہاں اخوان المسلون اور اس سوچ کی حامل عوام میں اپنی جڑیں گہری کر چکی تھیں اور جمہوری عمل کے ذریعے ان کے برسر اقتدار آنے کے امکانات واضح تھے جیسا کہ بعد میں مصر میں ہوا۔ عراق، لیبیا ،افغانستان سمیت بہت سے ممالک حکومتوں کی تبدیلی کی زد میں آئے۔ پاکستان اور افغانستان کو خوفناک تشدد کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ سعودی عرب اور ایران کا محاصرہ مختلف انداز سے جاری رہا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کا مقدر بربادی اور بدنامی ٹھیرا۔ لاکھوں افراد اس کھیل میں جاں سے گزر گئے۔ کئی مسلمان ممالک اقتدار اعلیٰ گنوا بیٹھے۔ دشت لیلیٰ، ابوغرائب اور گوانتا موبے کے تعذیب کدوں میں انسانیت کا دامن جس طرح تار تار کیا اس نے بربریت جیسے محاوروں اور اصطلاحات کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اسلام اور مسلمانوں کو مکمل طور پر دہشت گردی کے ساتھ بریکٹ کر دیا گیا۔ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کو اپنے مقاصد اور مطلب برابری کے لیے استعمال کیا گیا۔ نفرت اور خوف کی جو فصل مغرب میں بوئی گئی اب پک کر تیار ہے اور آج امریکا جیسے معاشرے میں مسلمان سماجی اعتبار سے تنہا کیے جارہے ہیں۔ پچیس سال تک یہ سلسلہ جاری رہا اور اب جبکہ دنیا کا منظر بدل رہا ہے تو امریکا نے اس ’’مسلمان مرکز‘‘ پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے روس اور چین جیسے خطرات پر توجہ دینے کا اعلان کیا۔ جنوبی چین کے مصنوعی جزیروں اور یوکرائن میں ان دونوں طاقتوں کے ساتھ امریکی کھٹ پٹ شروع چکی ہے۔ امریکی اعلان کے بعد بظاہر یہ امید بندھ چلی ہے کہ اب امریکا کی طرف سے مسلمان ملکوں اور معاشروں کو بھنبھوڑنا اور جھنجھوڑنا کسی حد تک کم کر دے گا۔ اگلے برسوں امریکا سے مسلمانوں کی جان چھوٹ جائے تو اسے ایک معجزہ ہی کہا جاسکتا ہے۔