امریکی ڈرون حملہ اور پاکستان کی مذمت

447

امریکی حکام نے پاکستان کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی دھمکی دی تھی جس پر سول اور ملٹری قیادت نے خوب شور مچایا تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ ایسا کرکے تو دیکھو ۔ اور گزشتہ بدھ کو امریکا نے اپنی اس دھمکی پر عمل کرکے دکھادیا۔ پاکستانی حدود میں کرم ایجنسی کے سرحدی علاقے میں افغان مہاجرین کے گھر پر ڈرون حملہ کرکے 3 افراد کو شہید کردیا۔ گھر تباہ ہوگیا۔ ڈرون حملے کے جواب میں پاکستان نے صرف مذمت کرنے سے کام چلایا اور اسے یکطرفہ کارروائی قرار دیا ہے۔ امریکی ذریعہ ابلاغ وائس آف امریکا نے دعویٰ کیا ہے کہ مارے جانے والوں میں سے دو حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر تھے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہناہے کہ دہشت گرد افغان مہاجرین کیمپ میں رہ رہے ہیں۔ یعنی ترجمان نے تسلیم کیا ہے کہ امریکا نے جن کو مارا ہے وہ دہشت گرد تھے۔ پھر امریکا سے کس بات کا شکوہ۔ ماضی میں فوج کے افسران ایسے مواقع پر امریکا کا شکریہ ادا کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کی مشکل آسان کررہاہے یعنی جو کام پاکستان کی فوج اور ایجنسیاں نہیں کرسکتیں وہ امریکا کردیتا ہے۔ تو پھر اس بار مذمت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مذمت اس بات پر کی گئی ہے کہ حملہ کرنے سے پہلے ہمیں کیوں نہیں بتایاگیا اور امریکی انتظامیہ میں یہ تاثر عام ہے کہ پاکستان کو اطلاع دی جائے تو ملزم فرار ہوجاتے ہیں۔ اطلاع دیے یا اعتماد میں لیے بغیر پاکستانی حدود میں حملہ کرنے کی سب سے بڑی مثال تو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے گھر پر حملہ کرنے اور انہیں ہلاک کرنے کی ہے۔ اس حملے میں امریکی ہیلی کاپٹر ایک طویل فاصلہ طے کرکے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے اور پوری فضائیہ سوئی پڑی رہی۔ امریکی کمانڈوز اسامہ کی لاش بھی اٹھاکر لے گئے حالانکہ ایبٹ آباد بڑا حساس فوجی علاقہ ہے جس کی حدود میں فوج کی کاکول اکیڈمی ہے۔ بھی ہے اور ایبٹ آباد میں فرنٹیئر فورس رجمنٹ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔اس موقع پر پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ دعویٰ بھی کر ڈالا کہ امریکی حملے کو سول حکومت کی آشیرواد حاصل تھی۔ دفتر خارجہ پاکستان کے ترجیمان نے اس پر زور دیا ہے کہ ’’خاص کارروا ئی‘‘ کے لیے خفیہ معلومات کا تبادلہ ہونا چاہیے۔ یعنی ہمیں بتاؤ، ہم خود کارروائی کریں گے۔ ترجمان کے مطابق ایسی یکطرفہ کارروائیاں پاکستان اور امریکا کے درمیان تعاون کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ایسے اقدامات سے تعلقات مزید خراب ہوں گے، اپنی سالمیت کے تحفظ کے لیے کوئی بھی قدم اٹھاسکتے ہیں۔ تو اٹھاتے کیوں نہیں؟ وزیر خارجہ خواجہ آصف فرمارہے ہیں کہ ایسے حملے روکنے کی صلاحیت موجود ہے۔ غالباً اس صلاحیت کو استعمال کرنے سے یہ خرچ ہوجائے گی۔ اس سے پہلے یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ پاکستان امریکی ڈرون گراسکتا ہے۔ شاید ہمارے حکمران نہیں چاہتے کہ امریکا کا نقصان ہو۔ تعلقات خراب ہونے کا رونا رویا جارہاہے لیکن کیسے تعلقات؟ امریکا دھمکیاں دیے جارہاہے، امداد بند کردی ہے، پاکستان میں کارروائی کا آغاز ہوگیا ہے۔ پھر بھی تعلقات خراب ہونے کا ڈر۔ وزیرخارجہ خواجہ آصف تو کہہ چکے ہیں کہ امریکا سے ہر طرح کا تعاون ختم ہوچکا ہے اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی فرماتے ہیں کہ 70 سالہ پرانے تعلقات کیسے ختم ہوسکتے ہیں۔ تو پھر ٹھیک ہے 70 سال سے جیسے تعلقات چل رہے ہیں چلنے دیں۔ امریکا بار بار پاکستان کو دھوکا دے چکا ہے۔ آئندہ بھی ایسا ہی کرے گا اور پاکستانی حکمران اس کی خوشامد بلکہ کاسہ لیسی کرتے رہیں گے۔ امریکا اس سے پہلے بھی پاکستانی حدود میں ڈرون حملے کرتا رہا ہے لیکن یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ مارے جانے والے واقعی دہشت گرد تھے یا عام شہری۔ ڈمہ ڈولا پر میزائل حملے کی مثال بہت واضح ہے۔ پاکستانی حکمران تو امریکی حملوں کی حمایت امریکا سے بڑھ کر کرتے رہے ہیں، وہ بھلا کیوں تحقیقات کرنے لگے کہ مرنے والے بے گناہ تھے یا نہیں۔ بے گناہ افراد کو نشانہ بنانے کے متعدد واقعات خود افغانستان میں پیش آتے رہے ہیں۔ بین الاقوامی تحقیقاتی رپورٹیں گواہ ہیں کہ امریکا کا نشانہ بننے والے زیادہ تر عام شہری تھے۔ حکومت پاکستان نے یہ حل پیش کیا ہے کہ چونکہ افغان مہاجر کیمپوں میں دہشت گرد آکر چھپ جاتے ہیں چنانچہ تمام افغانوں کو واپس افغانستان بھیجا جائے۔ امریکا سے تعاون و تعلقات منقطع کرنے کے پاکستانی دعوؤں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے اندر ہی اندر فوجی سطح پر پاک امریکا تعلقات جاری ہیں اور امریکی مطالبات پر تعاون کے لیے بات چیت بھی جاری ہے۔ جیمز میٹس نے امریکی افواج کے لیے پاکستان سے گزرنے والی اہم سپلائی لائن کی معطلی کے امکان پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ’’نہیں مجھے اس بات کا خدشہ نہیں۔‘‘ امریکا تو پاکستان کو دھوکا دیتا رہا ہے لیکن پاکستانی حکمران تو عوام کو دھوکا نہ دیں اور کھل کر اعتراف کریں کہ امریکا سے ہر طرح کا تعاون جاری ہے تاہم بظاہر مذمت کی جاتی رہے گی۔