ہمارا عدالتی نظام

688

میڈیا رپورٹس کے مطابق ہری پور سینٹرل جیل میں تخت بھائی سے تعلق رکھنے والے دوہرے قتل کے مجر م جان بہادر کو پھانسی دے دی گئی ہے جب کہ اسی مقدمے میں ملوث جان بہادر کا دوسرا بھائی میر بہادر عمر قید کی سزا پوری ہونے پر تین ماہ بعد رہا کردیا جائے گا۔ تفصیلات کے مطا بق جان بہادر اور اس کا بھائی میر بہادر 2 بھائیوں کے قتل کے الزام میں 1993سے گرفتار چلے آرہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے ورثا اور عزیز واقارب نے مخالف فریق کے ساتھ پچھلے بیس پچیس برس کے دوران صلح صفائی اور راضی نامے کی ہر ممکن کو شش کی لیکن مقتولین کے ورثا نہیں مانے اور وہ قاتلوں کو قانون کے مطابق سزا دینے کے لیے نہ صرف مسلسل 24 سال تک مقدمے کی پیروی کر تے رہے بلکہ مجرموں کی سزا پر مصر بھی رہے۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں اتنی فعالیت کیوں نہیں ہے کہ وہ دن دیہاڑے کئی چشم دید گواہان کی موجودگی میں قتل کیے جانے والے مجرمو ں کو اولاً تو قا نون کے مطابق سزا دینے میں ناکام رہتا ہے اور اگر بالفرض مجرم پر فرد جرم عائد بھی کردی جاتی ہے تو عدالتی فیصلے پر عمل درآمد میں اتنا طویل اور صبر آزما وقت گزر جا تا ہے جس کے دوران اگر ایک جانب پہلے تو مقتولین کے ورثا پر مقدمے کی پیروی نہ کرنے کے لیے ہر طر ح کا دباؤ ڈالا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں جن میں تفتیش پر اثر انداز ہونے کے لیے پو لیس کو رشوت دینے سے لے کر مقتولین کے ورثا کو دھمکیاں، لالچ اور بسا اوقات تشدد سے بھی گریز نہیں کیا جاتا لیکن اگر یہ حربے کارگر ثابت نہیں ہوتے تو پھر جرگوں اور پنچائیتوں کا سہارا لے کر مقتولین کا خون بہا معاف کرانے کی تدبیریں اور سازشیں کی جاتی ہیں۔ ایسے میں اگر مقتولین کسی غریب اور کمزور گھرانے سے تعلق رکھتے ہوں تو ان کے لیے علاقے کے بااثر اور زورآور قاتلوں کا مقابلہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ رہی سہی کسر علاقے کے بااثر جرگہ باز طرح طرح کے حیلے بہانوں اور اپنی چکنی چپڑی باتوں جن میں معافی کے فضائل پر مبنی جھانسوں سے لے کر نئی نسل کے محفوظ اور غیر محفوظ ہو نے کے اندیشوں اور امکانات تک کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بعض مقدمات میں بات سورہ، رقم یا جائداد کی سپردگی کے ذریعے بھی ختم کرنے کے جتن کیے جاتے ہیں۔ ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت کم لوگ ہی ان متنوع اقسام کے دباؤ کا مقابلہ کر پاتے ہیں۔ زمینی حقیقت کے طور پر بالعموم دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں مجرموں کو کم ہی سزا ملتی ہے اور قانونی نظام کے اس سقم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اکثر مجرم مختلف ہتھکنڈوں اور سہاروں کے بل بوتے پر رہا ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس ضمن میں قانونی موشگافیاں جن میں ایف آئی آر کے اندراج سے لے کر دعویداری، گواہان کی دستیابی، شہادتوں، تفتیش، چالان اور پیشیوں وغیرہ کے کٹھن مراحل الگ سے سوہان روح بنے رہتے ہیں۔
دراصل یہ ہما رے اس ناقص عدالتی نظام کی خامی ہے جس کی وجہ سے ہمارے ہاں اگر ایک جانب قانون کو ہاتھ میں لینے کا رحجان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے تو دوسری جانب قانون کی گرفت اور عبرت ناک سزاؤں کا خوف نہ ہونے کے باعث ہمارے اردگرد آئے روز معصوم زینب، عاصمہ، مدیحہ اور نقیب اﷲ محسود جیسے واقعات تواتر کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے معاشرے میں بدامنی جو اس وقت ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ ہے پر قابو پانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں نہ صرف سو سال پرانے انگریز کے فرسودہ عدالتی نظام کو تبدیل کرنا ہو گا بلکہ اپنی معاشرت اور دین و عقیدے کی روشنی میں قرآن و سنت پر مبنی انصاف کا وہ شرعی عدالتی نظام بھی رائج کرنا ہو گا جس کی بنیاد اگر ایک طرف ہمارا آئین فراہم کرتا ہے تو دوسری جانب یہی و ہ نظام ہے جو قیام پاکستان اور تقسیم برصغیر کی بنیاد بھی ہے۔