زینب کا مقدمہ اور شکوک و شبہات 

470

پنجاب حکومت نے سات سالہ معصوم بیٹی زینب کے قاتل کو 15 دن کی جدوجہد کے بعد گرفتار کیا تو وزیراعلیٰ پنجاب خوشی میں ’’آپے سے باہر ہوگئے اور ’’شادیانے بجانے لگے‘‘ حالاں کہ ابھی ان کے کاندھوں پر درجنوں دیگر بچیوں جن کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا کے ملزمان کی عدم گرفتاری کا بھی بوجھ ہے۔ ’’شہباز اعلیٰ‘‘ نے پریس کانفرنس میں ان کے ہمراہ موجود زینب کے والد کو اپنی بات بھی مکمل کرنے نہیں دی اور خود ہاتھ بڑھا کر مائیک بند کرکے اٹھ گئے۔ وزیراعلیٰ کی اس غیراخلاقی حرکت پر زینب کے والد حیرانی سے ان کا چہرہ تکتے رہے۔ انہیں شاید یہ علم پہلی بار ہوا ہوگا کہ ’’بادشاہت‘‘ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ صاحب اقتدار خود ہی بات کرنے کا حکم دیا کرتے ہیں اور خود ہی بات کرنے سے روک بھی دیتے ہیں۔
وزیراعلیٰ کی پریس کانفرنس میں تالیاں بجانا اور بجوانا دونوں عمل ہی متاثرہ خاندانوں پر نمک پاشی کے مساوی تھے۔ قوم پنجاب حکومت خصوصاً وزیراعلیٰ شہباز شریف سے یہ سوال کرنے کا حق رکھتی ہے کہ یہ تالیاں دیگر بچیوں کے درندہ صفت قاتل گرفتار نہ کیے جانے پر بجائی گئیں تھیں؟ یا پھر اس بات پر کہ پنجاب پولیس اس شقی القلب انسان کو زینب کے پڑوس اور غمزدہ خاندان کے درمیان رہنے کے باوجود پندرہ دن تک نہیں پکڑ سکی تھی؟۔
اطلاعات کے مطابق قصور پولیس نے ملزم کو اس کے ماموں کے شبہے پر ایک ہفتہ قبل حراست میں لیا تھا مگر ڈی این اے کی رپورٹ آنے سے قبل ہی چھوڑ دیا تھا لیکن جب ڈی این اے میچ ہوا تو اسے دوبارہ حراست میں لیا گیا۔ مقتولہ کی والدہ نے کہا کہ: ’’ملزم کو تو گرفتار کر لیا گیا لیکن چیف جسٹس آف پاکستان سے میری اپیل ہے کہ آج ہی سے اس کی سزا کا آغاز کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں جن سے وہ معصوموں کے گلے دباتا رہا‘‘۔ زینب کی والدہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: ’’مجھے بہت افسوس ہوا ہے کہ ہم سب اپنی بچی کے غم میں تڑپ رہے ہیں اور آنسو بہا رہے ہیں لیکن پریس کانفرنس میں اس تڑپ اور آنسوؤں پر تالیاں بجائی گئیں‘‘۔ مقتولہ زینب کی امی نے سوال کیا کہ یہ ملزم گزشتہ ڈھائی برس سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ملوث ہے، کیا اس کے ان ڈھائی برسوں پر تالیاں بجائی گئیں؟‘‘ زینب کے والد محمد امین نے کہا کہ ’’ملزم کا اعترافی بیان سامنے آچکا ہے، ملزم نے 5 دن تک بچی کو اپنے گھر میں رکھا جو ڈھائی سے تین مرلے کا ہے اور جس میں 2 کمرے ہیں‘‘۔
محمد امین نے الزام عائد کیا کہ ملزم کے گھر والے سب کچھ جانتے تھے، جنہوں نے ملزم کو چھپائے رکھا۔ انہوں نے سوال کیا کہ: ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص نے بچی کو اپنے اتنے چھوٹے گھر میں 5 دن تک رکھا اور بعد میں قتل کیا لیکن گھر میں موجود کسی بھی فرد نے اس کی چیخ نہیں سنی جب کہ گھر میں تو خواتین میں بھی ہوتی ہیں جو گھر کا سارا کام کرتی ہیں؟‘‘
وزیراعلیٰ پنجاب اپنی پولیس کی کارکردگی ظاہر کرنے کے لیے اس قدر جذباتی تھے کہ انہوں نے صحافیوں کو یہ بتایا ہی نہیں کہ ملزم ملزم کا پڑوسی تھا اور ملزم کے حلیہ بدلنے پر مقتولہ کی والدہ کو سب سے پہلے شک ہوا تھا جنہوں نے پولیس کو آگاہ بھی کردیا تھا۔ مگر پولیس نے اسے حراست میں لینے کے بعد چھوڑ دیا تھا۔ سوال یہ بھی ہے کہ پولیس نے کس امید پر ملزم کو چھوڑدیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کا ایک ہفتہ قبل کا یہ انکشاف درست تھا کہ: ’’زینب کا قاتل پکڑا گیا ہے‘‘۔
پنجاب پولیس کے رویے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس نے ملزم کی گرفتاری کے لیے روایتی طریقے بھی نہیں اپنائے بلکہ نامعلوم وجوہ کی بنیاد پر اسے سہولت فراہم کرتی رہی۔ اگر یہ بات درست ہے تو شبہ ہوتا ہے کہ پولیس اس مقدمے کی سماعت کے دوران کوئی ایسی قانونی کمزوری شامل کردے گی جس سے پورا مقدمہ کمزور ہوجائے گا اور ملزم جلد ہی ضمانت پر رہا ہوجائے گا اور بعد میں اسے شک کا فائدہ مل جائے گا اس طرح وہ مقدمے سے بری ہوجائے گا۔
اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو پنجاب پولیس ہی نہیں بلکہ پوری پنجاب حکومت ذمے دار ہوگی۔ ویسے بھی ’’خادم اعلیٰ‘‘ کو پولیس کی تعریف کرنے میں اس قدر جلد بازی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ دنیا بھر میں پولیس کی کارکردگی ملزمان کی گرفتاری سے نہیں بلکہ ملزم کے خلاف مقدمے فیصلے سے مشروط کی جاتی ہے۔ اگر عدالت نے ملزم کو بری کردیا تو یہ پولیس کی تفتیش کا منفی پہلو سمجھا جاتا ہے اور ایسے مقدمات کے پولیس اہل کاروں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی بھی عمل میں لائی جاتی ہے۔
پنجاب پولیس اور اس کی فرانزک لیب کی تعریفیں تو بہت کی گئیں لیکن اصل تعریف اس وقت ہوگی جب اس لیب کی رپورٹیں اور پولیس کی تحقیقات کے نتیجے میں مقدمہ درست سمت چلے اور ملزم یا ملزمان سخت سزا سے نہ بچ سکیں۔
اطلاعات کے مطابق ملزم عمران ولد ارشد کا تعلق مبینہ طور پر تحریک منہاج القرآن سے بتایا جارہا ہے جب کہ ملزم کا حلیہ بھی کلوز سرکٹ ٹی وی کی فوٹیج سے میچ نہیں کیا جارہا۔ اس وجہ سے شک ہورہا ہے کہ پنجاب حکومت نے ایک ملزم کو اپنے تئیں ’’مجرم‘‘ بناکر ’’ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ اس طرح حکومت نے اس دباؤ کو تو ختم ہی کردیا جو حکومت کی ساکھ عین انتخابات کے قریب مزید خراب کررہا تھا۔ دوسری طرف پنجاب حکومت خصوصاً وزیر قانون کے تحریک منہاج القرآن سے کشیدہ تعلقات تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ان سیاسی تعلقات کو بدلنے کے لیے بھی بہت کچھ کیے جانے کا شک موجود ہے۔ اس لیے شک نہیں شکوک پیدا ہورہے ہیں کہ کہیں اس مقدمے کو بغیر کسی نتیجے کے داخل دفتر کرنے کی شروعات بھی تو نہیں ہوچکیں۔
وزیراعلیٰ شہباز شریف کی جانب سے مقتولہ زینب کے والد کو کھل کر اپنا موقف پریس کانفرنس میں پیش کرنے سے روکنے سے یہ شبہات کم ہونے کے بجائے بڑھ چکے ہیں۔
بہرحال زینب اور دیگر چھ کمسن لڑکیوں سمیت اس طرح کے تمام واقعات کے اصل ملزمان کا کیفر کردار تک پہنچنا بے انتہا ضروری ہے۔ بصورت دیگر قوم پولیس کے ساتھ سیاسی حکومتوں کے امور کو بھی صرف ڈرامے سمجھنے میں حق بجانب ہوگی۔