ڈیووس میں شاہد خاقان کا خطاب

323

پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ جمعرات کو سوئٹرز لینڈ کے شہر ڈیووس میں پاکستان کے حوالے سے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے اور ہم جمہوریت سے سیکھ رہے ہیں ۔ یہ اچھی بات ہے کہ جمہوری حکومت کے وزیر اعظم کو جمہوریت سے کچھ سیکھنے کا خیال آیا۔ ساتھ ہی وزیر اعظم نے یہ بھی فرمایا کہ سول ملٹری تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کوشش میں وزیر اعظم اپنے باس میاں نواز شریف کو بھی شامل کرلیں اور خود بھی عدالتی فیصلوں کا احترام کرنا سیکھیں کیوں کہ عدلیہ بھی جمہوریت کا حصہ ہے جس کے فیصلوں کو ردی کی ٹوکری کی نذر کرنے کے اعلانات کیے جارہے ہیں ۔ وجہ صرف اتنی ہے کہ فیصلے ان کے رہنما کے خلاف ہیں۔ عدالت ان کو نا اہل قرار دے چکی ہے مگر شاہد خاقان عباسی قوم اور ملک سے نہیں نواز شریف سے وفاداری نباہ رہے ہیں اور عدالت کی طرف سے نا اہل قرار دیے گئے شخص کو اعلانیہ اپنا وزیر اعظم قرار دیتے ہیں۔ شوق سے تسلیم کریں لیکن یہ یاد رہے کہ وزیر اعظم سمیت تمام حکمران عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کا مضحکہ اڑائیں گے تو عوام ایسا کیوں نہیں کریں گے۔ خرابی ہمیشہ اوپر سے نیچے آتی ہے اور ایک محاورے کے مطابق مچھلی اپنے سر سے سڑنی شروع ہوتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ شاہد خاقان کچھ سیکھ رہے ہیں لیکن ذرا جلدی کریں کیوں کہ ان کی مہلت عمل کم رہ گئی ہے۔ نئے انتخابات کے بعد جانے کون سیکھنے کے عمل سے گزرے۔ ابھی تو یہ بھی طے نہیں ہوا کہ نواز شریف تا عمر نا اہل ہوگئے یا چند برسوں کے لیے۔ وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ عوام کی طرف سے ان کے جلسوں میں شرکت عدلیہ کے فیصلے کے خلاف ریفرنڈم ہے۔ جلسے، جلوس سے عدالتی فیصلے تبدیل کرائے جانے لگے تو بہت سے لوگ عوام کو سڑکوں پر لا کر اپنے فیصلے کرنے لگیں گے۔ یہ بہرحال جمہوریت کے منافی ہے۔ وزیر اعظم نے سول ملٹری تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کا ذکر بھی کیا ہے لیکن میاں نواز شریف نے تو اپنے خلاف فوج کو بھی سازش میں شریک کرلیا ہے اور فرمایا کہ یہ عدلیہ اور طاقت کا گٹھ جوڑ تھا۔ وزیر اعظم کے بیان سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ ابھی سول اور ملٹری تعلقات بہتر نہیں ہوئے، کوشش جاری ہے۔ یہ کوشش کب تک کامیاب ہوگی، اس کا انتظار رہے گا۔ وزیر اعظم اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے میں پراعتماد ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک سیکنڈ پہلے تک حکومت ختم نہیں کریں گے۔ انہوں نے مخالفین کو چیلنج بھی کیا کہ ہمت ہے تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر کے نتیجہ دیکھ لیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو بھی چیلنج دیا کہ ان دونوں جماعتوں کی جن صوبوں میں حکومتیں ہیں پہلے ان کو توڑیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا کوئی نہیں کرے گا بلکہ جنہوں نے استعفے دینے کا اعلان کیا تھا وہ بھی پیچھے ہٹ گئے ہیں ۔ ڈیووس میں اچھی بات یہ ہوئی کہ پیپلز پارٹی کے صدر نشین بلاول زرداری نے بھی وزیر اعظم کی تقریب میں شرکت کی۔ ملک سے باہر یکجہتی کا مظاہرہ کرنا اچھا ہے، اپنے گندے کپڑے گھر ہی میں دھونا بہتر ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ملک میں غیر یقینی صورت حال نہیں ہے، جمہوریت مضبوط، ادارے آئینی دائرے میں کام کررہے ہیں۔ انہیں یہ تو معلوم ہوگا کہ عدالتوں کا شمار بھی آئینی دائرے میں ہوتا ہے اور وہ اپنا کام بخوبی کررہی ہیں اور جمہوریت کی مضبوطی میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں ۔ مسلم لیگ ن کا کردار عدالتوں کے حوالے سے قابل تحسین نہیں رہا اور میاں صاحب عدالت عظمیٰ پر حملہ آور بھی ہو چکے ہیں ۔ وزیر اعظم نے امریکا سے ہر سطح پر تعاون جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں کہ امریکی دھمکیوں اور حملوں کے باوجود حکمران امریکا سے ہر قسم کا تعاون کرنے پر بے تاب ہیں ۔ شاید یہ بھی جمہوریت کا تقاضا ہے۔