کراچی (اسٹا ف رپورٹر) وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ پانچ ماہ کی مدت میں چند بڑے نوعیت کے معاشی اقدامات کریں گے۔ رواں مالی سال معاشی نمو کی شرح 6 فیصد رہے گی جو10 سال میں بلند ترین شرح ہے۔ رواں مالی سال300ارب ڈالر کی معیشت میں 18 ارب ڈالرکا اضافی ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس پاکستان کی جانب سے اپنے اعزاز میں منعقدہ ایک شام میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس اور بزنس کمیونٹی کے افراد سے ملکی معیشت، مسائل اور مواقع پربحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ گیس کی قلت میں کمی میں درآمدہ ایل این جی نے اہم کردار ادا کیا۔ملک بھر میں سڑکوں کا جال بچھایا جارہاہے، گیس وبجلی کی فراہمی سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تین سال لگاتار ایکسپورٹ میں کمی کے تناظر میں ڈالر کی قدر کوفکسڈ رکھنا بڑی غلطی رہی۔ اس سال انتہائی ضروری ہے کہ بجٹ خسارے کو کم کیا جائے، اسے5 فیصد تک رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے لیے عائد کردہ نئی ریگولیٹری ختم کردی جائیں گی۔ ایف بی آر کے وصول شدہ ریونیو کا60 فیصد حصہ صوبوں کو جاتا ہے، این ایف سی فارمولا دیکھنا ہو گا۔ معیشت کودستاویزی کررہے ہیں جسے ایمنسٹی کہا جارہا ہے، چور دروازے بند کر دیں گے ورنہ یہ ناکام ہو جائے گی۔ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ 15 فروری تک برآمد کنندگان کے سیلزٹیکس ریفنڈز کی ادائیگیاں کردی جائیں گی۔ ملک میں 70 فیصد ریونیو ودہولڈنگ ٹیکس سے آتا ہے، ہم اس سے ہٹ نہیں سکتے۔ پالیسیاں مرتب کرنے اور ریونیو کی وصولیوں کے لیے الگ الگ ادارے ہونے چاہیءں۔ میں تبدیلی نہیں لایا ،تبدیلی کہیں اور ہونے جارہی ہے۔ ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے لیے انفرادی ٹیکس ریٹ کم کریں گے۔ قبل ازیں صدر آئی کیپ ریاض رحما ن چامڈیا نے اپنے خطاب میں کہا کہ سال2017 میں معاشی نمو اور اعداوشمار میں بہتری رونما ہوئی۔ملکی معیشت کو درپیش مسائل کو فوکس کرکے انہیں حل کرنا ہوگا، ہمیں ٹیکس ریفنڈ اور سرکلر ڈیٹ کاسامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوادرپورٹ بننے سے ملکی معیشت وتجارت کو فائدہ ہو گا، نئے صنعتی زونز کے قیام پر توجہ دینا ہوگا۔ آئی کیپ معیشت کی بہتری کے اقدامات میں حکومت کو اپنا بھرپور تعاون پیش کرتا ہے۔ اس موقع پر پینل ڈسکشن بھی ہوا جس کے شرکاء میں سی ای او پاکستان کونسل احسان ملک، معروف صنعتکار عارف حبیب، کونسل ممبر آئی کیپ اشفاق تولہ، سابق صدر آئی کیپ اسد علی شاہ اور ڈاکٹر وقار مسعود خان شامل تھے۔ اس موقع پر گفت گو کرتے ہوئے پینلسٹ احسان ملک نے کہا کہ پیداواری شعبے کاحصہ جی ڈی پی میں کم ہورہا ہے۔ پیداوار بڑھانے کے لیے مالیاتی تجارت اور توانائی کی پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرنا ہوگا۔ عارف حبیب نے کہا کہ سمندر پار پاکستانیوں کی سالانہ آمدنی 50 ارب ڈالر سے زائد ہے لیکن انہیں یہاں سرمایہ کاری کی پرکشش ترغیب دینی ہو گی۔ حکومتی پالیسیوں اور امن وامان کی وجہ سے پاکستانیوں نے سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا، اسے واپس لانا چاہیے۔ اشفاق تولہ نے کہا کہ ٹیکس اصلاحات لانے کی اشد ضرورت ہے۔ انڈونیشین ماڈل کی طرزپرملکی وغیرملکی اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم متعارف کرائی جائے۔ پاکستان میں کارپوریٹ ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہے۔ صرف100 بڑی کمپنیاں431 ارب روپے سالانہ ٹیکس ادا کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں61 ہزارکمپنیوں میں سے صرف10 ہزار کمپنیاں ٹیکس ادا کررہی ہیں۔ کارپوریٹ ٹیکس ریٹ میں کمی سے ٹیکس وصولیوں میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ سابق صدر آئی کیپ اسد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی سطح پر واحد ٹیکس اتھارٹی قائم کی جائے۔ وفاقی سطح پر قائم ٹیکس اتھارٹی وفاقی وصوبائی سمیت ہرطرح کے ٹیکس وصول کرے۔ صوبائی اور وفاقی ٹیکس اتھارٹیز کا انضمام کیا جائے۔