بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

381

متین فکری

لوگ کہتے ہیں اور سچ ہی کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف تیس پینتیس سال اقدار میں رہنے کے بعد اقتدار سے بے دخل ہوئے ہیں لیکن خود اقتدار ان سے بے دخل نہیں ہوا، وہ اب بھی ان کے اشاروں پر حرکت کررہا ہے اور ان کا نامزد وزیراعظم ان کی خوشنودی کے لیے یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اس کے قائد کے خلاف عدالتی فیصلے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے جائیں گے۔ میاں صاحب کے نااہل ہونے کا انہیں دوہرا فائدہ ہوا ہے وہ بیک وقت حکومت میں بھی ہیں اور اپوزیشن میں بھی۔ حکومت ان کے اشاروں پر حرکت کررہی ہے، نااہل ہونے کے باوجود وہ مکمل سرکاری پروٹوکول کے لیے اہل ہونے کا درجہ رکھتے ہیں، وہ ملزم کی حیثیت سے احتساب عدالت میں پیش ہوں تو بھی سرکاری پروٹوکول ان کے جلو میں ہوتا ہے، وہ عدالت سے باہر آکر میڈیا سے یوں بات کرتے ہیں جیسے وہ عدالت میں پیشی بھگتنے نہیں اس کا معائنہ کرنے اور جج کی کارکردگی جانچنے آئے تھے۔ دیکھا جائے تو میاں صاحب اس وقت ملک کے سب سے بڑے اپوزیشن لیڈر بھی ہیں لیکن ان کی یہ اپوزیشن حکومت کے خلاف نہیں کیوں کہ حکومت تو ان کی اپنی ہے بلکہ یہ اپوزیشن ریاستی اداروں خاص طور پر عدلیہ کے خلاف ہے جس نے انہیں پاناما کیس میں نااہل قرار دیا ہے اور وزیراعظم ہاؤس سے نکال باہر کیا ہے۔ وہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان کرتے ہوئے ججوں کو مطعون کررہے ہیں، ان پر تبّرا بھیج رہے ہیں اور انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ عدلیہ اس قدر دباؤ میں ہے کہ وہ میاں صاحب کے خلاف ازخود توہین عدالت کا نوٹس بھی نہیں لے سکی اور ایک عام شہری کو ان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کرنا پڑی ہے۔ میاں صاحب عدلیہ کو دباؤ میں لانے کے ساتھ ساتھ اپنے خلاف کسی سازش کا بھی ذکر کررہے ہیں۔ وہ بظاہر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان کے خلاف یہ سازش کون کررہا ہے لیکن ان کے سارے اشارے کنایے فوج کی طرف ہیں۔ میاں صاحب کا نامزد وزیراعظم اور ان کا جانشین کہہ رہا ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں اور ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے تو کیا حکومت اور فوج مل کر میاں صاحب کے خلاف سازش کررہے ہیں؟ معلوم ہوتا ہے کہ سازش کی کہانی بڑی پیچیدہ ہے اور اس کا سرا کسی کے ہاتھ نہیں آرہا۔ خود میاں صاحب بھی اس کا سرا پکڑنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
خیر یہ موضوع تو چلتا رہے گا اور جب تک میاں صاحب اقتدار سے باہر ہیں اس پر بحث ہوتی رہے گی۔ یہاں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ میاں صاحب نے اقتدار کے طویل عرصے کے دوران سیاست میں سلوک و معرفت کی کتنی ہی منزلیں طے کی ہیں اور اب اقتدار سے باہر رہنے کے بعد وہ معرفت کی جس منزل پر پہنچے ہیں اس نے پوری قوم کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ شاید اقتدار کی لگن آدمی کو اس آخری منزل پر پہنچا کر دم لیتی ہے۔ ہم میاں نواز شریف کی اس آخری منزل کا تو بعد میں ذکر کریں گے، پہلے آپ کو بتاتے ہیں کہ سیاست میں معرفت کی پہلی منزل پر انہوں نے کب قدم رکھا تھا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ میاں صاحب جب دوسری بار تین چوتھائی اکثریت سے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو ان کے اندر امیرالمومنین بننے کی خواہش نے انگڑائی لی تھی، یہی سیاست میں معرفت کی ان کی پہلی منزل تھی، اس وقت امارت اسلامی و افغانستان کے امیر ملا عمر ان کے آئیڈیل تھے اور طالبان حکومت وہ مثالی حکومت تھی جس کی وہ پیروی کرنا چاہتے تھے، ان کی خواہش تھی کہ پاکستان میں فرد واحد کا حکم چلے اور ایسا انصاف قائم ہو کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے نظر آئیں۔ اللہ بخشے ان کے والد مرحوم سعودی بادشاہت کو ایک آئیڈیل نظام قرار دیتے تھے ان کا خیال تھا کہ اگر پاکستان میں بھی یہ نظام آجائے تو اس ملک کی قسمت بدل سکتی ہے لیکن میاں نواز شریف کی قسمت نے یاوری نہ کی۔ وہ نہ بادشاہ بن سکے نہ امیرالمومنین، البتہ آرمی چیف نے ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر انہیں سعودی عرب بھیج دیا تا کہ وہ وہاں بیٹھ کر سعودی بادشاہت کا مزہ چکھتے رہیں۔ وہ آٹھ نو سال تک جدہ کے سرور پیلس میں سعودی میزبانی کا لطف اُٹھاتے رہے پھر حالات نے پلٹا کھایا۔ میاں صاحب پاکستان واپس تشریف لائے اور 2013ء کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے تیسری بار وزیراعظم بن گئے۔ اب کی دفعہ انہوں نے سیاسی معرفت کی نئی منزل سر کرلی تھی۔ انہوں نے امیرالمومنین بننے کے بجائے بھارت سے دوستی اور لبرل ازم کا پرچم اُٹھا رکھا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ عوام نے انہیں بھارت سے دوستی کا مینڈیٹ دیا ہے لیکن اس دوستی میں مسئلہ کشمیر کا کوئی ذکر نہ تھا جو دونوں ملکوں کے تعلقات میں خنجر کی طرح پیوست تھا اور جسے حل کیے بغیر دوستی کسی صورت بھی پروان نہیں چڑھ سکتی تھی لیکن میاں صاحب بضد تھے کہ وہ کشمیر کو نظر انداز کرکے بھی بھارت کے ساتھ دوستی کا راگ الاپ سکتے ہیں، وہ اپنے اس مشن میں اتنا آگے چلے گئے کہ دو قومی نظریے کی بھی تردید کردی اور پاکستان و بھارت میں بسنے والوں کو ایک قوم قرار دے ڈالا جو ایک جیسا لباس پہنتے، ایک جیسا کھانا کھاتے اور ایک ہی بولی بولتے ہیں۔ بس زمین پر کھینچی گئی ایک لکیر نے انہیں الگ الگ کر رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پاکستان کو لبرل بنانے کا بھی اعلان کردیا، یعنی پاکستان کی اسلامی شناخت کو بھی مٹانے کی ٹھان لی لیکن آدمی اپنی چال چلتا ہے اور اس کے مقابلے میں قدرت اپنی چال چلتی ہے۔ وہ قدرت کی چال کو مات نہیں دے سکتا، میاں نواز شریف کے ساتھ بھی یہی ہوا، وہ قدرت کے ہاتھوں مات کھا گئے، پاناما لیکس اچانک آسمان سے نازل ہوئی، میاں نواز شریف کے خلاف مقدمہ چلا اور ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ان کی پیشانی پر نااہلی کا ٹھپا لگا کر انہیں اقتدار سے الگ کردیا۔ اب وہ اقتدار کے بغیر ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں اور اقتدار کی لگن میں
سیاسی معرفت کی آخری منزل پر جا پہنچے ہیں۔ یہ منزل ہے غدارِ پاکستان شیخ مجیب بننے کی خواہش۔ انہوں نے شیخ مجیب الرحمان کو محب وطن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے اقتدار نہ دے کر بغاوت پر اُکسایا گیا، مجھے بھی اتنے زخم نہ لگاؤ کہ جذبات قابو میں نہ رہیں۔ لب لباب اس بیان کا یہ ہے کہ اگر مجھے اقتدار سے محروم رکھا گیا اور احتساب عدالت نے ریفرنسز میں مجھے سزا دے کر اور چرکا لگا دیا تو میرے لیے بھی شیخ مجیب کی طرح بغاوت کے سوا اور کوئی راستہ نہیں رہے گا۔ ایک اور بیان میں ارشاد ہوتا ہے کہ اگر مجھے اقتدار نہ ملا تو میں سارے پول کھول دوں گا۔ بلاشبہ ریاست کے بہت سے راز ہوتے ہیں جو قومی سلامتی کے پیش نظر افشا نہیں کیے جاسکتے۔ میاں نواز شریف نے اقتدار نہ ملنے کی صورت میں اِن رازوں کو افشا کرنے کی دھمکی دی ہے۔ حالاں کہ وہ اس وقت بھی ڈھول کے پول بنے ہوئے ہیں اور زبانِ حال سے بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔ خلاصہ اس کا یہی ہے کہ اقتدار کے بغیر یہ ملک میرے کس کام کا‘ اسے آگ لگادینی چاہیے اور اس کی راکھ کو بھی ہوا میں اُڑا دینا چاہیے۔ یہ ہیں میاں نواز شریف جن کی حب الوطنی کا بڑا چرچا تھا لیکن اقدار کا چولا اُترتے ہی جن کا بھیانک چہرہ سامنے آگیا ہے۔ ہم اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں۔۔۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔