مقتل کراچی میں امن کے دعوے

324

گورنر سندھ جناب محمد زبیر نے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی میں امن حکومت کا کارنامہ ہے۔ گورنرصاحب چونکہ وفاق کے نمائندہ ہیں اس لیے حکومت سے ان کی مراد مرکزی حکومت ہے۔ کراچی میں امن و امان کے دعوے پر ہنسنا مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ گورنر صاحب کی ذمے داری ہے کہ وہ جس کی نمائندگی کر رہے ہیں اس کے گن گائیں۔ کراچی میں امن و امان کی صورت حال کے بارے میں غیر جانبدارانہ رپورٹیں تو یہ ہیں کہ راہزنی یا اسٹریٹ کرائمز میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ گورنر صاحب شاید ٹی وی دیکھتے ہیں نہ اخبارات کا بغور مطالعہ کرتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں پر سی سی ٹی وی کی مدد سے دن دہاڑے لوٹ مار کی وار داتیں نشر ہوتی ہیں۔ مزاحمت پر خواتین سمیت شہری مارے جا رہے ہیں۔ رینجرز پر الزامات ہیں کہ اہلکار لوگوں کو گھروں سے اٹھا کر لا پتا کر رہے ہیں۔ پولیس جعلی مقابلوں میں لوگوں کو ہلاک کر رہی ہے اور اس میدان میں راؤ انوار اکیلا نہیں۔ اس نے اپنے بہت سے جانشین تیار کر رکھے ہیں۔ رینجرز ایک کام بڑی دل جمعی سے کر رہی ہے اور روزانہ ایم کیو ایم لندن کے کسی کارندے کو پکڑ لیتی ہے۔ الطاف حسین کی ملک دشمنی اور بھارتی ایجنسی را کے تعلق کے ثبوت ملنے کے بعد اب ایم کیو ایم لندن کے کسی کارندے کی گرفتاری پر کوئی توجہ بھی نہیں دیتا۔ لیکن یہ حساب ضرور لگانا چاہیے کہ 22 اگست 2017ء کے بعد سے اب تک لندن سے تعلق رکھنے والے کتنے کارکن پکڑے جا چکے ہیں۔ اور اس کی بھی گنتی کی جائے کہ ایم کیو ایم لندن کے نام پر مدفون اسلحہ کب تک نکلتا رہے گا۔ ہر دوسرے دن کہیں کہیں نا کہیں سے اسلحہ نکال لیا جاتا ہے۔ کراچی سے اب تک اتنا اسلحہ نکل چکا ہے جو عرصے تک ایجنسیوں کی ضرورت پوری کرتا رہے گا۔ یاد ہو گا کہ 1992ء میں بھی گھر گھر سے ٹارچر سیل برآمد کیے جاتے تھے۔ اس طرح ایک حقیقت نے افسانے کا روپ دھار لیا۔ اس کے باوجود ایم کیو ایم سندھ حکومت اور وفاق میں شریک اقتدار رہی۔ گورنر سندھ فرماتے ہیں کہ کراچی میں امن و امان کا دور دورہ ہے اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ ہے کہ ’’پولیس کے ہاتھوں کراچی مقتل بن گیا۔‘‘ اس مقتل میں گورنر سندھ امن و امان کا راگ الاپ رہے ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ گھر سے نکلنے والے کسی بچے، کسی جوان کی بخیریت واپسی یقینی نہیں ہوتی اور ان کی مائیں دعائیں مانگتی رہتی ہیں۔ یہ تو باہر جانے کی صورت حال ہے لیکن امن تو گھر کے اندر بھی نہیں۔ کبھی پولیس اور کبھی رینجرز گھر میں گھس کر کسی کو بھی اٹھا کر لے جاتے ہیں اور یا تو بھتا دے کر واپسی ہوتی ہے یا کہیں سے لاش ملتی ہے۔ اسی پر امن شہر میں ایک چاقو باز خواتین کو نشانہ بناتا رہا اور پولیس، رینجرز، سی ٹی ڈی، ایف آئی اے، سی آئی ڈی اور متعدد ایجنسیاں اسے پکڑنے میں ناکام رہیں اور شہر میں امن ہے۔ رپورٹ کے مطابق کراچی میں 12 ہزار جرائم پیشہ افراد پولیس میں بھرتی کیے گئے۔ پولیس کی وردی پہن کر ان کی وارداتوں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہو گئی۔ نقیب اللہ محسود کے قتل سے پہلے بھی جعلی پولیس مقابلوں کا شور تھا لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ نقیب اللہ کی ہلاکت پر جب ہر طرف ہا ہا کار مچی تو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ نہ صرف اسے جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا بلکہ ایسے بے گناہوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ لیکن گورنر سندھ جس مقتل میں بیٹھے ہیں اس کے بارے میں لا علم ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے ایک تبصرے میں کہا ہے کہ ماضی میں ماورائے عدالت قتل پر حکومت توڑی گئی۔یہ ایک انتباہ ہے۔