آصف جیلانی
مصر میں آئندہ مارچ میں منعقد ہونے والا صدارتی انتخاب اچھا خاصا مذاق بنتا جا رہا ہے۔ مطلق العنان فوجی صدر عبد الفتح السسی، جنہوں نے دوسری معیاد کے لیے صدارت کا انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے منظم فوجی حکمت عملی کے تحت اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ وہ بلا مقابلہ منتخب ہو جائیں۔ سب سے پہلے جنرل السسی نے ایوان نمائندگان کی کمیٹی کو شہہ دی کہ وہ انتخاب کے لیے ان کو نامزد کرے۔ پھر فن کاروں، ممتاز کھلاڑیوں اور صحافیوں کے دستخطوں سے محضر نامے تیار کیے گئے جو تمام وزارتوں کو بھیجے گئے اور سرکاری افسروں سے ان پر دستخط لیے گئے۔ ان محضر ناموں کے بڑے بڑے پوسٹر چھاپ کر قاہرہ کی سڑکوں پر آویزاں کیے گئے۔ بہت سے لوگوں نے اس اقدام کا مذاق اڑایا اور کہا کہ اتنے کشٹ کی کیا ضرورت تھی۔ ایوان نمائندگان نہایت آسانی سے جنرل السسی کی صدارتی معیاد میں غیر معینہ مدت کے لیے توسیع کرسکتا تھا اور ملک صدارتی انتخاب کے ڈھونگ سے بچ سکتا تھا۔
ویسے بھی تین اہم ممالک، امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب یہی چاہتے ہیں کہ جنرل السسی کو جو ان کی آشیر باد کے ساتھ 2014 میں برسر اقتدار آئے تھے، ا ن کے پچھلے تین سال کے کارناموں پر انعام دیا جائے۔ ان ممالک کے نزدیک جنرل السسی کا سب سے بڑا کارنامہ، مصر میں اخوان المسلمون پر کاری وار ہے۔ جنرل السسی نے نہ صرف اخوان المسلمون کے قائد، مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹا بلکہ انہیں جیل میں پابند سلاسل کر کے موت کی سزا سنوائی۔ اب بھی متعدد مقدمات ان کے خلاف زیر سماعت ہیں۔ اسرائیل اس وقت جنرل السسی سے اتنا خوش ہے کہ اس سے پہلے کسی مصری حکمران سے خوش نہیں تھا۔ اخوان المسلمون کا کانٹا راہ سے ہٹانے کے بعد اسرائیل جنرل السسی سے غزہ کے محاصرے میں بھر پور مدد پر بھی بے حد خوش ہے۔ اخوان المسلمون پر پابندی پر سعودی عرب بے حد مصر تھا اور اس کے عوض بھاری مالی امداد بھی دی تھی۔
تین اہم صدارتی امیدوار انتخابی میدان سے نکلنے کے بعد اب چوتھے امیدوار، انسانی حقوق کے وکیل اور حزب مخالف کے رہنما خالد علی نے بھی انتخابی مقابلہ سے الگ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس مہینے کی گیارہ تاریخ کو خالد علی نے اعلان کیا تھا کہ وہ صدارتی انتخاب لڑیں گے۔ لیکن بارہ روز بعد انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ اب وہ امیدوار نہیں۔ خالد علی نے اس سے پہلے 2012میں صدارتی انتخاب لڑا تھا لیکن انہیں بہت کم ووٹ ملے تھے۔ البتہ 45سالہ خالد علی نے گزشتہ سال جنوری میں اس وقت نمایان شہرت حاصل کی جب انہوں نے بحر احمر میں مصر کے دو جزیروں کو سعودی عرب کے حوالہ کرنے کے بارے میں صدر السسی کے فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کیا تھا اور اس میں وہ سرخ رو ہوئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ خالد علی پر جنرل السسی کی انٹیلی جنس ایجنسی کا سخت دباؤ تھا کہ وہ صدارتی انتخاب لڑنے کا خیال چھوڑ دیں۔ خالد علی کو بھی خطرہ تھا کہ انہیں انتخاب میں حصہ لینے کا نا اہل قرار دے دیا جائے گا کیوں کہ دو جزیروں کا مقدمہ جیتنے کے بعد انہوں نے جذبات میں آکر نازیبا اشارے کیے تھے۔ جس پر انہیں گزشتہ ستمبر میں قاہرہ کی عدالت نے تین ماہ قید کی سزا دی تھی۔ اس سزا کے بعد ان کا انتخاب لڑنا ناممکن ہوگیا ہے۔
خالد علی سے پہلے صدر السسی کے تین مد مقابل امیدواروں کو انتخابی میدان چھوڑنا پڑا تھا۔ فضائیہ کے سابق کمانڈر اور حسنی مبارک کے دور کے وزیر اعظم احمد شفیق محمد ذکی کو مجبوراً انتخابی معرکہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دینے پڑے۔ احمد شفیق جنہیں 2011 میں مصری انقلاب کے دوراں حسنی مبارک نے وزیر اعظم مقرر کیا تھا، جنرل السسی کے تعاقب سے جان چھڑانے کے لیے ایک عرصے سے متحدہ عرب امارات میں جلا وطنی اختیار کر رکھی تھی جہاں، گزشتہ نومبر میں انہوں نے صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ احمد شفیق کے قریبی مشیر سابق آڈیٹر ہشام گنین ہیں جنہوں نے پچھلے دنوں انکشاف کیا تھا کہ کرپشن کی وجہ سے ملک کو 76ارب ڈالر کا تباہ کن خسارہ ہوا ہے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ خلیج کی تین ریاستوں نے جنرل السسی کو پچاس ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد دی ہے جس کا حساب لیا جانا چاہیے۔ یہ نہایت سنگین الزامات تھے جنرل السسی کے خلاف۔
پچھلے دنوں جنرل السسی کے ایماء پر متحدہ عرب امارات نے انہیں گرفتار کر کے ملک بدر کر دیا، قاہرہ ہوائی اڈہ پر اترنے کے بعد احمد شفیق غائب ہوگئے۔ کئی روز بعد پتا چلا کہ یہ ایک ہوٹل میں قید تھے جہاں ان پر اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ انہوں نے رہا ہوتے ہی اعلان کیا کہ وہ صدارتی انتخاب نہیں لڑیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے خلاف جنسی اسکنڈل کے الزام ہیں جن کے سامنے انہوں نے گھٹنے ٹیک دیے۔
احمد شفیق ذکی کے صدارتی انتخاب کے میدان سے الگ ہونے کے بعد ایک اور صدارتی امیدوار، مصر کے سابق صدر انوار السادات کے بھتیجے احمد انوار السادات نے بھی صدارتی انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت خوف کی ایسی فضا ہے کہ اس میں انتخاب لڑنا ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ قیادت نے ملک میں آزادی کا گلا گھونٹ دیا ہے اور تمام مخالف ٹی وی چینل قریب قریب بند کر دیے گئے ہیں۔ ایسے حالات میں انتخاب لڑنا ممکن نہیں ہے۔ محمد انوار السادات گزشتہ سال تک پارلیمنٹ کے رکن تھے لیکن انہیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے خارج کر دیا گیا تھا۔ ان پر غیر ملکی سفارت خانوں سے رابطہ کا الزام تھا۔
چوتھے اہم امیدوار جنرل سمیع عنان تھے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جنرل السسی کے مقابلے میں ان کی جیت کے قوی امکانات تھے۔ جنرل سمیع عنان 2005 سے 2012 تک مصری فوج کے چیف آف اسٹاف تھے۔ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے اعلان سے پہلے انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ملک کی جیلوں میں دسیوں ہزار سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے تاکہ ملک میں کشادگی کی فضا پیدا کی جاسکے۔ ان کے بارے میں یہ مشہور کیا گیا کہ انہیں ممنوع اخوان المسلمون کے حامیوں کی حمایت حاصل ہے۔ جنرل السسی اور فوج کی اعلیٰ کمان جنرل عنان سے اس قدر خائف تھی کہ اعلی کمان نے انہیں طلب کیا اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے فوج کی اجازت کے بغیر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا جو فوج کے قوانین اور قواعد کے خلاف اقدام ہے۔ یہ محض بے بنیاد الزام ہے کیوں کہ جنرل عنان فوج سے بہت عرصہ قبل ریٹائر ہو چکے ہیں اور انہوں نے اپنی سیاسی جماعت قائم کی ہے۔
یوں اب صدر السسی کے لیے صدارتی انتخاب کا میدان تمام متوقع امیدواروں سے خالی ہو چکا ہے۔ جس طرح جنرل السسی کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی ہمت کرنے والے امیدواروں کا یکے بعد دیگرے صفایا ہوا ہے اسے دیکھ کر کوئی سر پھرا ہی جنرل السسی کے مقابلہ میں انتخابی میدان میں کودنے کی ہمت کرے گا اور اگر کسی نے دیوانگی پر اصرار کیا تو جنرل السسی کے مقابلے میں اس کی جیت کا دور دور تک امکان نظر نہیں آتا ہے۔ غرض یہ انتخاب مضحکہ خیز ناٹک کے سوا کچھ نہیں ہے۔