راؤ انوار کی گرفتاری میں تاخیر تشویشناک

298

عدالت عظمیٰ نے راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس کو تین روز کی مہلت دی ہے۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہاہے کہ راؤ کا پتا ہوتا تو اسے پکڑ لیتے عدالتی احکامات پر راؤ انوار کا ائرپورٹ سیکورٹی پاس منسوخ ہوگیا ہے اس کے بیرون ملک سفر کی تفصیلات طلب کرلی گئی ہیں۔ چارٹرڈ طیاروں کے مالکان سے حلف نامے بھی طلب کرلیے گئے ہیں۔ غرض چیف جسٹس نے ہر طرح کے ممکنہ انتظامات کرلیے ہیں۔ لیکن ایک پہلو بہت خطرناک ہے وہ راؤ انوار کی گرفتاری میں تاخیر پر نقیب اﷲ اور جعلی مقابلوں میں مارے جانے والوں کے رشتے داروں اور احباب میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور اشتعال ہے۔ یہ لوگ اب ہر سطح تک جانے کو تیار ہیں۔ ایک طرف قانونی جنگ لڑنے کے لیے رقم جمع کی جارہی ہے۔ لوگ اثاثے فروخت کرکے رقم جمع کررہے ہیں اور محسود قبائل نے ایک ارب روپے جمع کرلیے ہیں۔ قانونی جنگ یا سیاسی دباؤ کی حد تک تو معاملات درست رہتے ہیں لیکن جب تاخیر حد سے بڑھ جائے تو لوگ قانون ہاتھ میں لینے کی سوچتے ہیں اور راؤ انوار کے معاملے میں اس قسم کی باتیں شروع ہوگئی ہیں۔ راؤ انوار کے اس جعلی مقابلے کے حوالے سے ایک جرگے میں کہا گیا ہے کہ پولیس ناکامی کا اعتراف کرلے ہم راؤ انوار کی تلاش میں چپہ چپہ چھان ماریں گے۔ اسے چھپنے کے لیے جگہ نہیں ملے گی۔ ظاہری بات ہے جب لوگ خود راؤ انوار کو تلاش کریں گے تو اسے حلوے پراٹھے تو نہیں کھلائیں گے۔ پولیس، سیاسی سرپرستوں اور غیر مرئی طاقتور ہاتھوں کی وجہ سے راؤ انوار کی گرفتاری میں جو تاخیر ہورہی ہے وہ ہجوم کے انصاف کی طرف حالات کو لے جارہی ہے۔ ہجوم کے انصاف سے سب کو خوف ہے۔ کیونکہ اس میں ضروری نہیں ہوتا کہ انصاف ہی ہو۔ بلکہ ہجوم کی سمجھ میں جو آیا وہی کر ڈالتا ہے۔ اب جب کہ جرگے نے بھی کہہ دیا ہے کہ چپہ چپہ چھان ماریں گے تو پھر اس سے قبل کہ محسود قبائل یا دوسرے متاثرین راؤ انوار کو خود تلاش کریں پولیس کو اسے تلاش کرنا چاہیے۔ اے ڈی خواجہ بڑے فرض شناس اور ایماندار افسر کی شہرت رکھتے ہیں لیکن ان کا جواب مایوس کن ہے کہ اگر مجھے راؤ انوار کا پتا ہوتا تو پکڑ لاتا۔ آئی جی صاحب جس طرح اور مشتبہ لوگوں کے معاملے میں کیاجاتا ہے کم از کم ایک مرتبہ اور وہی کر ڈالیں کسی کے گھر چھاپا مارا جائے اور وہ گھر پر نہ ملے تو پولیس کیا کرتی ہے گھر کے تمام مردوں کو اٹھا کر لے جاتی ہے۔ یہاں تک کہ مرد نہ ہوں تو خواتین کو بھی تھانے لے جانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ یہ نہایت غلط اور غیر قانونی، غیر آئینی، غیر اسلامی طریقہ ہے لیکن جب محض شبہے پر چھوٹی موٹی وارداتوں کے ملزمان کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے تو راؤ انوار کے لیے ہی ساری رعایتیں کیوں؟ ایسے فرد کے لیے جس کے ٹیلی فون ریکارڈ سے بھی اس کے مقابلے جعلی ثابت ہوچکے ہیں۔ آئی جی صاحب عدالت عظمیٰ کے حکم پر فوری کارروائی کریں اگر انہوں نے اس مہلت کا فائدہ نہ اٹھایا تو عدالت بھی فرض شناس افسران کو کوئی تعاون نہیں دے سکے گی۔ بات صرف راؤ انوار کی نہیں بلکہ دوسرے کیسز میں بھی لوگ پولیس پر اعتماد کھو بیٹھیں گے اور خود فیصلے کرنے کے بارے میں سوچیں گے۔ یہ راستہ تباہی کی طرف لے جائے گا۔