امریکی امداد اور تعلقات

373

امریکی سینیٹ میں پاکستان کی امداد مکمل طور پر بند کرنے کے بل پر قانون سازی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایک اعتبار سے ایک مستحکم خود انحصار پاکستان کے لیے یہ فیصلہ خوش آئند ہی ہے۔ جب تک امداد نہیں بند ہوگی اس وقت تک امداد پر انحصار بھی رہے گا۔ اس بل کی مدد سے امریکی دفتر خارجہ ایک ارب 29 کروڑ ڈالر اور عالمی ترقیاتی فنڈ کا ادارہ 85 کروڑ 20 لاکھ ڈالر امداد روک دے گا۔ یہ رقم کم و بیش سوا دو ارب ڈالر کے قریب ہوگی۔ اس میں سے بہت بڑی رقم امریکی خود ہی ہڑپ کرجاتے ہیں یہ سب اپنی جگہ لیکن وزیراعظم پاکستان نے اپنے انٹرویو میں کہاہے کہ امریکا پاکستان کو امداد دے ہی نہیں رہا ہے تو کٹوتی یا بندش کا کیا سوال۔ وزیراعظم پاکستان نے کوئی غلط بات نہیں کہی ہے بلکہ ایک حقیقت کا اظہار کیا ہے، امریکا پاکستان کو جو رقم مختلف حوالوں سے دیتا ہے وہ یا تو کولیشن سپورٹ فنڈ ہے یا مشترکہ دفاعی اخراجات ہیں۔ بعض اخراجات تو پاکستانی حکام پہلے کر ڈالتے ہیں اور جب امریکا سے طلب کیے جاتے ہیں تو امریکی اس کی ادائیگی مؤخر کردیتے ہیں۔ باالفاظ دیگر لٹکادیتے ہیں۔ امریکیوں نے پاکستان کو گزشتہ 15 سے 20 برسوں کے دوران جو 33 ارب ڈالر دیے ہیں یا جن کا دعویٰ کیا جارہاہے ان میں سے تو بہت سے ڈالر امریکی اور پاکستانی حکام مل کر ادھر ادھر کرچکے ہیں۔ ایک مرتبہ اس امداد کا آڈٹ بھی ہوجانا چاہیے کہ کون سی رقم کس مقصد کے لیے دی گئی تھی اور کون سی رقم اب تک ادا نہیں کی گئی۔ اور جو وصول کی گئی وہ خرچ کہاں کی گئی ۔ امریکی دعوے کے جواب میں وزیراعظم نے جو یہ کہاہے کہ پاکستان کے ساڑھے چھ ہزار جوانوں نے قربانی دی ہے انہیں یہ نہیں کہنا چاہیے۔ پاکستانی فوج کے جوانوں نے ڈالروں کے لیے قربانی نہیں دی تھی انہوں نے فوجی قیادت اور حکومت کے حکم پر امریکی جنگ کو اپنی جنگ تصور کرتے ہوئے جانیں دی ہیں۔ یہ فیصلہ کرنے والے ہمارے جوان نہیں تھے بلکہ حکمران تھے جنہوں نے امریکی جنگ کو پاکستانی جنگ قرار دیا تھا۔ بد قسمتی سے یہ فیصلہ اس وقت ہوا جب حکومت اور فوج کی قیادت جنرل پرویز کے پاس تھی ورنہ الگ الگ قیادت ہونے کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی پالیسی بن جاتی۔ وزیراعظم نے ایک اور بات بھی کہی ہے کہ ٹرمپ کے ٹوئٹ کو امریکی پالیسی نہیں سمجھتے۔ شاہد خاقان عباسی سیاست میں بھی عرصے سے ہیں اور امریکی صدور کے بیانات اور پالیسیوں کو بھی دیکھ اور سن رہے ہیں ان کی یہ رائے غلط ہے کہ ٹرمپ کے ٹوئٹ کو امریکی پالیسی نہیں سمجھتے۔ جناب وزیراعظم صاحب امریکی صدر جو کہتا ہے وہی امریکا کی پالیسی ہوتی ہے جب تک وہ صدر ہے وہی امریکی قانون ہے۔ جمہوریت اپنی جگہ ہے۔ لہٰذا امریکی صدر کے بیانات کو اس وقت تک امریکی پالیسی سمجھا جائے جب تک امریکی صدر یا حکومت کا ذمے دار ادارہ اس کی تردید نہ کردے۔ وزیراعظم نے امریکی حکمرانوں کو متنبہ کیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی سوچ نہ بدلی تو افغانستان امریکا کے لیے ویتنام ثابت ہوگا۔ ظاہری بات ہے یہ پیغام ٹرمپ کے ٹوئٹ کے حوالے سے ہے تو وزیراعظم عملاً ان کے ٹوئٹ کو امریکی پالیسی ہی سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم یہ بھی فراموش کر گئے کہ افغانستان امریکا کے لیے ویتنام بن جائے گا تو وہ بھاگتے ہوئے افغانستان کے پڑوسی کے ساتھ وہی کرے گا جو ویتنام کے پڑوسی کمبوڈیا کے ساتھ کیا تھا۔ سارے بم ساری تباہی اس کے حصے میں آئی تھی۔ اب افغانستان میں تباہی کے بعد کھلم کھلا اعتراف شکست کے بعد امریکا اپنے عوام کو یہی لالی پاپ دیتا ہے کہ وہ بھرپور کامیابی حاصل کرکے آیا ہے۔ 58 ہزار لاشیں تو ویتنام میں رہ جاتی ہیں کچھ اعلیٰ فوجی افسران پریس کانفرنس کرتے ہیں کچھ بڑے اخبارات امریکا میں بھی دفتر خارجہ کے کنٹرول میں ہیں ان کی مدد سے قوم کو بتایا جاتا ہے کہ امریکی فوج بیرون ملک امریکی عوام کے دفاع کا کارنامہ انجام دے کر آئی ہے۔ ویتنام کے معاملے میں یہی ہوا،، عراق کے معاملے میں بھی یہی ہوا اور افغانستان کے معاملے میں بھی۔ امریکی حکمران اپنے عوام کے ٹیکسوں کی رقم پر بہت بڑے بڑے منصوبے کھڑے کرکے اربوں کھربوں ڈالر کا بارود دنیا بھر میں پھینک رہے ہیں اس کا حساب امریکی عوام کو لینا ہے۔ پاکستان کو تو صرف اتنا کرنا ہے کہ اب اگر امریکا پاکستان کے ساتھ تعاون ختم کرتا ہے تو کرے بس ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہیں پاکستان کو کمبوڈیا نہ بنادیا جائے۔