رضا ربانی کا مزدوروں کو حقوق کے لیے متحد ہونے کا مشورہ

643

کراچی: سینٹ کے چیئر مین میاں رضا ربانی نے مزدوروں اور پسے ہوئے طبقات کے ایک وسیع ترین اتحاد بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے 8دسمبر 2017کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے حکومت سے اس پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ اتوار کے روز پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ایجوکیشن (پائلر)، ڈیموکریٹک ورکرز فیڈریشن آف اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور کراچی پریس کلب کی جانب سے منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کررہے تھے ،جو سپریم کورٹ کے تھرڈ پارٹی کانٹریکٹ کے خاتمے سے متعلق تاریخی فیصلے سے متعلق تھا۔میاں رضا ربانی نے کہا کہ ٹھیکیداری نظام کی وجہ سے پاکستان میں مزدور بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی فوجی حکومتوں نے جان بوجھ کر عوامی طاقت کو کمزور کیا ، جن کی طاقت کا سرچشمہ مزدور، طلباءاور کافی کلچر تھے۔ انہوں نے فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان کے خلاف مزدوراور طلباءکی تحریک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مزدور یونین کی ایک کال پر کراچی سے لے کر پشاور کی صنعتیں بند ہوجایا کرتی تھیں۔ مگر جنرل ضیاءالحق کی فوجی حکومت نے مزدوروں اور طلباءکی طاقت کو ختم کرنے کے کوشش کی۔ انہوں نے ہمارے کافی کلچر کو جان بوجھ کر تباہ کیا،جہاں فیض احمد فیض، حبیب جالب اور جون ایلیا طلباءاور مزدوروں کی نظریاتی تربیت کیا کرتے تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ اب کوئی متبادل حبیب جالب یا جون ایلیا پیدا کیوں نہیںہوتا۔رضا ربانینے کہا کہ ایکمنظمطریقہ کار کے تحت عوامی طاقت کا پاکستان میں صفایا کیا گیا، اس سازش میں ملک کی اشرافیا اور ریاستی ادارے شامل رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عوامی طاقت کی عدم موجودگی کی وجہ سے ملک میں جبری گمشدگیاں بڑھ رہی ہیں، اور عوام انصاف سے محروم ہیں۔ عوامی شکایات پر حکومت کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی ، جب تک کوئی شوروغول نہ کیا جائے۔اس موقع پر اپنے خطاب میں نیشنل کمیشن فار ہومین رائیٹس کی رکن انیس ہارون نے کہا کہ پاکستان میں تمام مزدور مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے کم از کم اجرت 15,000مقرر کی ہوئی ہے جو کہ انتہائی کم ہے۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اتنی کم اجرت پر مزدور اپنی زندگی کتنی مشکلات سے گذارتے ہوں گے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر رشید اے رضوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ سپریم کورٹ کا تازہ فیصلہ خوش آئند ہے، مگر اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس نے مزدوروں کے مفاد میں کئی فیصلے دیے ہوئے ہیں،جن پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملازمت میں ٹھیکیداری نظام پاکستان بننے سے بھی قبل قوانین میں مزدور کی وصف میں شامل کیا گیا تھا، جس جو پاکستان بننے کے بعد بھی مختلف لیبر قوانین میں من و عن شامل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انڈسٹریل رلیشنز ایکٹ 1969میں بھی مزدور کی وصف میں ٹھیکے کے تحت ملازمین کو بھی شامل کیا گیا تھا، اور اس کے بعد بننے والے تمام قوانین میں بھی اس کوتبدیل نہیںکیا گیا۔ 18ویں آئین ترمیم کے بعد صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے بننے والے انڈسٹریل رلیشنزقوانین میں بھی ٹھیکیداری نظام کو قانونی شکل دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 8دسمبر کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے تھرڈ پارٹی ٹھیکیداری نظام کو دھوکہ دہی پر مشتمل نظام قرار دیا ہے، جو کہ آئین کے کئی آرٹیکلز کی خلاف ورزی ہے۔ پائلر کے ڈائریکٹر کرامت علی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں 75فیصد مزدور ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرہے ہیں جہاں ان کو کوئی بھی بنیادی مزدور حقوق میسر نہیں ہیں ۔ نیشنل لیبر فیڈریشن کے ناصر منصوراور کراچی پریس کلب کے صدر احمد ملک نے بھی خطاب کیا۔اس موقع پر تھل انجیئرنگ کی مزدور یونین کے اراکین نے سینیٹ چیئرمین کو ایک یاداشت پیش کی جس میں ان کی یونین پر پابندی اور اس کے اراکین کے خلاف مقدمات کے اندراج کی شکایت کی گئی تھی۔