آصف جیلانی
میں نے آنکھ مسلم قوم پرست تعلیمی ادارے جامعہ ملیہ اسلامیہ، دلی میں کھولی تھی۔ 1947 کے ستم گر فسادات کے دوراں نئی دہلی سے دس میل دور جمنا کی آگرہ جانے والی نہر کے کنارے، جامعہ جو تین سمت ہندووں کے گاؤں سے گھری ہوئی تھی، چار ماہ سے بد ترین محاصرے میں تھی۔ عالم یہ تھا کہ برابر کے گاؤں جولینا میں جہاں آٹا پیسنے کی واحد چکی تھی وہاں تک کسی کو جانے کی ہمت نہیں تھی۔ آٹے کی قلت کی وجہ سے سب کو مطبخ کی تندوری روٹی کے چار حصے کاٹ کر ایک چوتھائی ٹکڑا ملتا تھا۔ گوشت کا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، گودام میں برسوں رکھی پرانی کیڑے لگی دال پر گزارہ تھا جسے کھاتے وقت پلیٹ میں کیڑے تیرتے نظر آتے۔ پرانی دلی میں خونریز فسادات کی آگ بھڑکی ہوئی تھی اور شہر جانے کے تمام راستے بند تھے ہر رات جمنا پار سے ’’دھاڑ‘‘(حملے) کا خطرہ رہتا تھا۔ جامعہ کالج کے پرنسپل جے بی کیلاٹ صاحب اور جامعہ کے ثانوی مدرسے کے نگران، علامہ مشرقی کے داماد، اختر حمید خان صاحب شعبہ کے دفاع کے سپہ سالار تھے، جن کی سربراہی میں جامعہ کے اساتذہ اور طالب علم سارے دن اور ساری رات پہرہ دیتے تھے۔ صورت حال اس وقت اور ناگفتہ بہ ہوگئی تھی جب جمنا پار کے دیہاتوں سے مسلمانوں نے حملوں سے اپنی جان بچا کر جامعہ میں پناہ لی تھی۔
10 جنوری کو ایک کار بڑی تیزی سے جامعہ میں داخل ہوئی۔ سب لوگ گھبرا گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کار سے گاندھی جی اتر رہے ہیں، جو نوا کھالی اور بہار کے خونریز فسادات کے بعد جہاں حسین شہید سہروردی ان کے ساتھ امن کی کوششوں میں مصروف تھے، دلی لوٹتے ہی سیدھے جامعہ آئے تھے۔ گاندھی جی تین گھنٹے تک جامعہ میں رہے اور سارے وقت، مسلم پناہ گزینوں کے بیچ بیٹھے رہے اور انہیں تسلی دیتے رہے۔ بار بار ایک لمبی آہ بھر کر اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہتے، بہت برا ہوا، بہت برا ہوا۔ ان کے چہرے سے کرب اور شدید ناکامی کا احساس عیا ں تھا۔ کہہ رہے تھے کہ میں پاکستان جا کر ان سب بھائیوں کو اپنے ساتھ واپس لاؤں گا جو یہاں سے چلے گئے ہیں۔ جامعہ سے جاتے ہوئے کہنے لگے کہ میں فسادات کو رکوانے اور پاکستان کی رکی ہوئی پچیس کروڑ کی رقم کی ادائیگی کے لیے مرن برت رکھوں گا۔
چناں چہ دوسرے روز جب برلا مندر میں گاندھی جی کے مرن برت کی خبر آئی تو جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ شدید خوف کے باوجود محاصرے سے باہرنکلے اور آس پاس کے دیہاتوں کی گلیوں میں ڈرتے ڈرتے جلوس نکالا۔ نعرہ لگا رہے تھے، ’’ہندو مسلم ایک ہو جاؤ۔ گاندھی جی کی جان بچاؤ‘‘ گاؤں والے یہ دیکھ کر دم بخود رہ گئے اور پھر یہی نعرے لگاتے ہوئے جلوس میں شامل ہوگئے، یہ ایسی جیت تھی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ گاندھی جی کا برت پانچ روز تک جاری رہا اور اس دوران فرقہ وارانہ فسادات کی آگ یکسر ٹھنڈی ہوگئی اور ہندوستان کی حکومت نے پاکستان کی رکی ہوئی رقم بھی ادا کردی۔
اس زمانے میں جامعہ میں بجلی نہیں آئی تھی۔ لاٹینیں اور گیس کے ہنڈے جلتے تھے۔ خاص خاص موقعوں پر جب اجتماعی طور پر ریڈیو سننا ہوتا تھا تو کار کی بیٹری لگا کر سنا جاتا تھا۔ میں نے البتہ جامع مسجد کے عقب میں کباڑی بازار سے پرانے ہیڈ فون کی ایک جوڑی، تانبے کے تار کا کوائل اور کرسٹل کی ڈلی خرید کر ایک چھوٹا سا ریڈیو بنا رکھا تھا جس پر اونچا ائریل لگا کر اور زمین میں گہرا ارتھ گاڑ کرصرف مقامی ریڈیو اسٹیشن سنا جا سکتا تھا۔
30 جنوری کی شام کو چھ بجے کے قریب میں ریڈیو سن رہا تھا کہ اچانک ایک دھماکے کی طرح اعلان ہوا کہ گاندھی جی کی ہتیا ہو گئی ہے۔ میں نے بھاگ کر جب اپنے اساتذہ کو یہ خبر بتائی تو کسی کو یقین نہیں آیا اور انہوں نے خود آکرتصدیق کے لیے میرے ریڈیو پر خبر سنی۔ کوئی بیس منٹ بعد پنڈت نہرو نے ریڈیو پر خطاب کیا سخت رندھی ہوئی آواز میں لیکن بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ باپو کو ایک ہندو نے قتل کیا ہے۔ گاندھی جی ہماری زندگی سے چلے گئے، اوراب چاروں طرف اندھیرا ہے۔ باپو کے ساتھ ہماری روشنی چلی گئی۔ میرے اساتذہ نے کہا کہ پنڈت نہرو نے نہایت دانشمندی سے کام لیاہے اور یہ واضح کر دیا کہ گاندھی جی کو ایک ہندو نتھو رام گوڈسے نے قتل کیا ہے ورنہ فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے جو شدید کشیدگی ہے اس میں پورے ملک میں آگ لگ جاتی اور مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوجاتا۔
گاندھی جی کے قتل کے ستر سال بعد اب بھی مجھے جامعہ میں ان کی آمد پر ان کا وہ چہرہ یاد آتا ہے جس پرچھایا ہوا کرب اپنی ناکامی کا اعلان کر رہا تھا۔ خود گاندھی جی کا قتل ان کے عدم تشدد کے نظریہ کی ناکامی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ گاندھی جی ہندوستان کی سیاست پر تین دہائیوں تک چھائے رہے اور ہندو اکثریت نے انہیں مہاتما کا درجہ دیا لیکن اس کے باوجود وہ ہندوستان کے عوام کے ذہنوں کو بدلنے اور ان میں عدم تشدد کے نظریہ کو حقیقی طور پر تسلیم کرنے کی کوشش میں یکسر ناکام رہے۔ سب سے بڑا خون آشام ثبوت تقسیم ہند کے وقت فرقہ وارانہ فسادات ہیں جن میں دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کی جانیں ایسے ہولناک انداز سے گئیں کہ جیسے آزادی کے لیے ان کی بھینٹ چڑھائی گئی ہے۔
اس ہولناک تشدد کے باوجود یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کی آزادی گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظریہ کی مرہون منت ہے۔ بلا شبہ گاندھی جی کا عدم تشدد کا نظریہ ہندوستان میں انگریز راج کے لیے نعمت تھا۔1920میں ترکی کی خلافت کی حفظ و بقا کے لیے جب مولانا محمد علی جوہرکی قیادت میں ہندوستان میں مسلمانوں کی تحریک اٹھی جو برطانوی راج کے خلاف جہاد کے جذبہ سے معمور تھی۔اس تحریک کی خاطر مسلمانوں نے سرکاری نوکریاں اور انگریزی تعلیمی ادارے چھوڑ دیے اور بیس ہزار سے سے زیادہ مسلمان ہجرت کرکے افغانستان چلے گئے تو اس موقع پر انگریزوں کو مسلمانوں کی مسلح جدو جہد کا شدید خطرہ تھا۔ انگریزوں نے یہ جانتے ہوئے کہ خلافت کا مسئلہ خالصتاً مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہے گاندھی جی کو شہہ دی کہ وہ اس تحریک کی قیادت اپنے ہاتھ میں لیں تاکہ تحریک تشدد کا رخ اختیار نہ کر پائے۔یہ بات انتہائی حیرت کی تھی کہ گاندھی جی کی قیادت میں تحریک خلافت کا وفد وائسرائے سے ملنے گیا تو وائسرائے نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ گاندھی جی آپ کا مسلمانوں کی خلافت سے کیا تعلق ؟ بلکہ گاندھی جی کی قیادت میں خلافت کے وفد کی پزیرائی کی۔
انقلابی اور ہندوستان کی آزادی کے لیے مسلح جدو جہد پر یقین رکھنے والے رہنما سبھاش چندر بوس،1938 اور1939میں لگا تار دو بار کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ انگریزوں کو ان سے شدید خطرہ تھاچناں چہ انگریزوں نے بڑی ترکیب سے گاندھی جی اور پنڈت نہرو کے ذریعہ پہلے سبھاش چندر بوس کو کانگریس کی قیادت سے ہٹایا اور پھر کانگریس ہی سے انہیں خارج کردیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انگریزوں نے گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظریہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن خود گاندھی جی اپنے اس نظریہ میں کامیاب ثابت نہیں ہوسکے۔
30 جنوری 1948کو برلا مندر کے سبزے پر ہندو قوم پرست اور مسلم دشمن آر ایس ایس کے کٹر حامی نتھو رام گوڈسے کے ہاتھوں قتل ہونے کے نصف صدی کے بعد خود گاندھی جی کے صوبہ گجرات میں آر ایس ایس کے کٹر حامی نریندر مودی کے راج میں تین ہزار مسلمانوں کا جس بہیمانہ انداز سے قتل عام ہوا وہ، گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظریہ کی ناکامی کا نا قابل تردید ثبوت ہے۔
گاندھی جی کے قتل کے بعد پنڈت نہرو نے صحیح کہا تھا کہ ملک کے عوام کی زندگی سے روشنی چلی گئی ہے۔عدم تشدد کا نظریہ جسے گاندھی جی نے ہندوستان کے لیے روشنی بنانا چاہا تھا واقعی ہمیشہ کے لیے ناکامی کے اندھیرے میں گم ہوگیا ہے۔