ترقیاتی منصوبے اور سیاسی تبدیلیاں

525

وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے گوادر فری زون کے پہلے مرحلے کا افتتاح کردیا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر کہا ہے کہ اقتصادی راہداری حقیقت کا روپ دھار گئی ہے اسے گیم چینجر تصور کرتے ہیں ۔ انہوں نے منصوبے کی خصوصیات بھی بیان کیں جو پہلے بیان کی جاچکی ہیں لیکن انہوں نے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کو سیاسی تبدیلیوں کے عمل سے الگ کردیا ہے۔اگر ایسا ہے اور واقعی ایسا کردیا گیا ہے تو یہ موجودہ حکومت کے تمام ترقیاتی منصوبوں سے بڑا قدم ہے۔ کیوں کہ پاکستان میں تو یہ ہوتا آیا ہے کہ ایک پارٹی ایک منصوبہ شروع کرتی ہے اور دوسری پارٹی آ کر اس منصوبے کی تختیاں تک اکھاڑ دیتی ہے۔ اپنے لوگوں کے نام ان تختیوں پر لگا کر دوبارہ افتتاح کردیتی ہے۔ یا پھر سابقہ حکومت کے منصوبے کو ناقابل عمل قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ایسے درجنوں منصوبے کاغذوں میں ہیں یاناکام بنا دیے گئے ہیں جو صرف سیاسی اختلاف یا ناپسند سیاسی جماعت نے بنائے تھے۔ کالا باغ ڈیم تو بن کر ہی نہیں دیتا۔ سندھ میں تھرکول منصوبہ برسوں سے حقیقت بننے کا منتظر ہے۔ لیکن سب سے بڑا واقعہ تو یہ ہوا کہ خود وزیر اعظم نے دو روز قبل جس منصوبے کا افتتاح کیا تھا وہ لیاری ایکسپریس وے تھا یہ نامکمل تھا۔ اس کا افتتاح کردیاگیا اس پر سابق سٹی ناظم کراچی نعمت اللہ خان نے توجہ دلائی ہے کہ لیاری ایکسپریس وے کا منصوبہ ہمارا تھا 15سال تاخیر اور 23ارب روپے کا نقصان کرنے والوں کا احتساب کیا جائے۔ نعمت اللہ خان نے توجہ دلائی ہے کہ اگر ہمارے ماس ٹرانزٹ منصوبے کو بروقت مکمل کرلیا جاتا تو آج کراچی کے عوام ٹرانسپورٹ مسائل سے دو چار نہ ہوتے۔ نعمت اللہ خان کی سٹی گورنمنٹ کے اس منصوبے کو کس نے سیاست سے دو چار کیا تھا۔ ظاہر سی بات ہے اس وقت سندھ حکومت میں جو لوگ تھے وہ سٹی گورنمنٹ کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ آج وزیر اعلیٰ سندھ نے جن بڑی بسوں کو ایک ماہ کے اندر کراچی میں چلانے کے لیے کہا ہے وہ بھی نعمت اللہ خان نے چلا دی تھیں لیکن انہیں بھی اس وقت کی سندھ حکومت اور بعد میں دوسرے سیاسی گروپ کے سٹی ناظم اور ان کی ٹیم نے سڑکوں سے ہٹا کر غائب کیا۔ لیاری ایکسپریس وے کے منصوبے کو بھی تاخیر کا شکار کیا۔ اب وفاق کی دلچسپی کے نتیجے میں اور سی پیک کی مجبوری کے سبب یہ منصوبے مکمل ہو رہے ہیں ۔ وزیر اعظم اس بات کا نوٹس لیں۔ اہل کراچی پر 15برس ظلم کیوں ہوا اور وہ 28ارب روپے کس کے تھے جو اس منصوبے پر اضافی لگے۔ اور اب کیا جلدی تھی کہ اس نامکمل ایکسپریس وے کا افتتاح کردیا گیا۔ تکمیل کا مطلب صرف سڑک کی تکمیل نہیں ہوتی۔ بجلی کی فراہمی، سیکورٹی اور بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی ضروری ہے۔