امریکی اشارے کا انتظار کیوں 

593

امریکا کی جانب سے ایک اور ڈرون حملے پرپاکستانی حکومت کی طرف سے روایتی مذمتی بیان کے بعد اب وفاقی وزیر دفاعی پیداوار اور سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے ایک اور بیان داغ دیا ہے کہ ہم امریکی ڈرون گرا سکتے ہیں۔ ان کے بیان سے بلکہ حکمرانوں کے ہر بیان سے ایسا لگتا ہے کہ وہ آج نہیں تو کل کوئی امریکی ڈرون گرا ہی دیں گے۔ اس بیان سے بھی یہی لگ رہا ہے کہ اب امریکا کی حیثیت فیجی جیسے کسی ملک کی ہے۔ رانا تنویر کہتے ہیں کہ امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعاون کا دارومدار امریکی رویے پر ہے وہ ہمارے ساتھ تعاون کرے گا تو ہم بھی کریں گے۔ امداد کی بندش سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے ایک اور دلچسپ بات کہی ہے کہ جب بھی پابندیاں لگیں زیادہ ترقی کی۔ امریکا بھول جائے کہ پاکستان اس کے اشاروں پر چلے گا۔ رانا تنویر صاحب نئے بیان کا حساب تو بعد میں دیں گے فی الحال تو انہیں بتانا ہوگا کہ پچھلے دعوؤں کا کیا بنا؟ جب حکومت نے کہا تھا کہ اب ہم پاکستانی حدود میں داخل ہونے والے ڈرون گرا دیں گے۔ یہ کہنا کہ ڈرون گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں نہایت بچگانہ بات ہے۔ جس طرح ڈرون بنانا اب بچوں کا کھیل ہے اسی طرح اسے ناکارہ بنانا یا اس کو گرانا بھی کوئی بڑی بات نہیں ۔ ایران تو امریکی ڈرون کا نظام ناکام بنا کر اسے اتار چکا ہے۔ اس کے بعد امریکی ایسے مشتعل ہوئے تھے جیسے ابھی ایران پر حملہ کردیں گے۔ حملوں کی تاریخیں طے کی جارہی تھیں جو آج تک طے نہیں ہوسکیں۔ پاکستان میں یہ عجیب بات ہے کہ حکومت کچھ کہتی ہے اور فوج کچھ۔ فوج کے ترجمان کا بیان ہے کہ حکومت حکم دے تو ڈرون گرا دیں گے۔ گویا حکومت نے ڈرون گرانے سے منع کیا ہوا ہے۔ اور حکومت کے کسی ذمے دار سے پوچھیں کہ ڈرون حملوں سے متعلق کیا پالیسی ہے تو کہیں گے کہ ہم جب چاہے ڈرون گراسکتے ہیں ۔ قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ حکومت ایسا کب چاہے گی۔ اب حکومت بھی یہ جواب دینے کو تیار نہیں کہ وہ ڈرون گرانا کب چاہے گی اور فوج بھی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ سرحدوں میں داخل ہونے والے ڈرون کی اطلاع تو پہلے انہیں ملتی ہے پھر حکومت کو ۔ تو کیا کبھی داخل ہونے والے ڈرون کی اطلاع حکومت کو دے کر پوچھا کہ کیا اسے گرا دیں ؟ اگر داخل ہوتے وقت نہ گرایا تو واپس تو نہ جانے دیں۔ یہ بات ہی عجیب و غریب ہے کہ سرحد کے اندر دشمن داخل ہو رہا ہے اس کو روکنے کے لیے حکومت کی اجازت کیوں ضروری ہے۔ اگر حکومت نے ڈرون گرانے سے منع کیا ہے تو اس حکم کو سامنے لایا جانا چاہیے تاکہ قوم اپنے حکمرانوں کا اصل چہرہ دیکھ لے۔ اور اگر حکومت نے کوئی حکم نہیں دیا ہے تو سرحدوں کے محافظ اپنا فرض ادا کریں ۔ رانا تنویر نے جو یہ بات فرمائی ہے کہ امداد کی بندش سے فرق نہیں پڑتا جب بھی پابندیاں لگیں زیادہ ترقی کی ہے۔ تو جناب مسلم لیگ تو ترقی ہی ترقی کے دعوے کررہی ہے آپ کو زیادہ ترقی اچھی نہیں لگتی؟ جب پابندیاں ہوتی ہیں اور ملک زیادہ ترقی کرتا ہے تو اس ترقی کو ناکام بنانے کے لیے دوڑ دھوپ کر کے پابندیاں ختم کیوں کرائی جاتی ہیں ۔ پابندیوں کو نافذ رہنے دیں تاکہ پاکستان زیادہ ترقی کرے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ حکومت خود ملکی ترقی نیہں چاہتی۔ ڈرون کے حوالے سے مسلم لیگی حکومت اور پارٹی لیڈر کے درمیان بھی تضاد نظر آرہا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ ڈرون گرا دیں گے۔ صلاحیت رکھتے ہیں ۔ لیکن پارٹی لیڈر تو کہہ رہے ہیں کہ ہمارے دور میں ڈرون حملے بند ہوگئے تھے۔ میاں نوازشریف صاحب یہ کس کا دور ہے۔ وزیر اعظم سمیت پوری وفاقی کابینہ ، وزرائے مملکت، مشیران اور ارکان اسمبلی میاں نواز شریف کے گن گا رہے ہیں ان ہی کو اپنا لیڈر قرار دے رہے ہیں تو پھر یہ کس کی حکومت ہے۔ حکومت تو میاں نواز شریف ہی کی ہے۔ ہم تو بس یہ کہتے ہیں کہ اب یہ کرسکتے ہیں وہ کرسکتے ہیں کی رٹ لگانے کے بجائے جو کرسکتے ہیں وہ کر دکھائیں۔ ورنہ اپنے اپنے گھر جائیں۔ ترقی کے دعوے سنتے سنتے برسہا برس گزر گئے ایک ایک پارٹی دو دو تین تین بار حکومت میں آچکی، صوبوں میں تو پانچ پانچ بار حکمرانی کرلی لیکن ترقی نام کو نہیں ہے۔ بسیں غائب، ٹرینیں تباہ، فضائی کمپنی تباہ، اسٹیل ملزتباہ، سڑکیں غائب، شہر کچرے سے بھرا ہوا۔ بجلی کے دعوے خوب۔ لیکن بجلی بھی غائب۔ اگر ترقی ہوئی ہے تو روزگار کیوں نہیں مل رہا۔ مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے عوام کی قوت خرید کیوں ختم ہوتی جارہی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر امن و امان ہے جو امریکا سے 33ارب ڈالر لے کر تباہ کیا گیا اب واپس نہیں آرہا ہے۔ اب بھی رانا تنویر اسی امریکا سے یہ کہہ رہے ہیں وہ ہمیں بتائے کہ کہاں دہشت گرد ہیں ہم کارروائی کریں گے۔ پاکستان تو دہشت گردوں کے خلاف ہر خطے میں کارروائی کرچکا امریکا کے اشارے کا انتظار کیوں ہے۔ پورا سوات، وزیرستان، خیبر ایجنسی، بلکہ عملاً پورا پختونخوا کھود ڈالا۔ کراچی میں بھی آپریشن ہی چل رہا ہے۔ مسلسل آپریشن کے نتائج پتا نہیں کیا ہیں حکومت امن و امان کے دعوے کرتی ہے اور نتیجہ سامنے ہے۔ رانا تنویر صاحب ایک جانب کہہ رہے ہیں کہ امریکا بھول جائے کہ پاکستان اس کے اشاروں پر چلے گا لیکن ساتھ ساتھ مطالبہ بھی کررہے ہیں کہ امریکا اشارہ کرے ہم کارروائی کریں گے۔ ویسے یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہمارے حکمران کسی نہ کسی کے اشارے پر کیوں چلتے ہیں اپنے ملک کے مفادات کو سامنے کیوں نہیں رکھتے، اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔