ٹریفک حادثات میں اضافہ

642

ہیومن رائٹس نیٹ ورک نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق پاکستان بھر میں گزشتہ 10 سال میں 60 ہزار سے زائد افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوئے۔ ان حادثات کا شکار ہونے والے زیادہ تر موٹر سائیکل سوار اور ہیوی ٹرک ہوتے ہیں۔ صرف کراچی میں سالانہ 30 ہزار ٹریفک حادثات رونما ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ حادثات صرف پاکستان میں ہوتے ہیں، دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک ایسے ہیں جہاں ٹریفک کے ہولناک حادثات ہوتے رہتے ہیں، لیکن ان کی نوعیت اور ذمے داری کے حوالے سے بڑا تفاوت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بارہا توجہ دلانے کے باوجود ٹریفک قوانین میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوسکی، لیکن ہر مسئلے کا حل قانون سازی اور حکومت کو قصور وار ٹھیرانا نہیں ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ حادثات کے ذمے دار بڑی حد تک خود عوا م ہوتے ہیں۔ کراچی میں غلط رخ پر ٹریفک چلنا تو گویا اب قانونی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ ہر ایک کو منزل تک پہنچنے کی اتنی جلدی ہوتی ہے کہ بشمول گاڑی، رکشے، چنگ چی ڈرائیور اور خصوصاً موٹر سائیکل سوار، کوئی بھی سگنل پر تھوڑی دیر رکنا گوارا نہیں کرتا۔ ایم اے جناح روڈ اور صدر میں اس وجہ سے گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے، یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پارکنگ مافیا نے جگہ جگہ اسٹینڈ بنا رکھے ہیں اور حکومت ان کے خلاف کچھ نہیں کرتی لیکن ایسی جگہوں پر پارکنگ کرنے والے بھی تو ہمارے ہی معاشرے کے افراد ہوتے ہیں۔ رات کے وقت لوگ شادی ہالوں کے باہر بیچ سڑک پر بھی گاڑی کھڑی کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہراہ پاکستان جیسی وسیع گزر گاہ رات کو 12 بجے تک جام نظر آتی ہے۔ اتوار کے زوز نوجوان لڑکے موٹر سائیکلوں پرریس لگاتے نظر آتے ہیں اور ان میں کئی تیز رفتاری کے باعث موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ پیدل چلنے والے لوگ بالائے سر پل ہوتے ہوئے پل کے نیچے سے سڑک عبور کرتے ہیں اور حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ پہلے زمانے میں لوگ بیماریوں کی وجہ سے مرتے تھے اور موجودہ زمانے میں چلتے ہاتھ پیر ہی اوپر چلے جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق روڈ ایکسیڈنٹ پاکستان میں اموات کی پندرہویں بڑی وجہ بن چکا ہے اور اگر صورتحال یوں ہی رہی تو 2030ء تک یہ پانچویں بڑی وجہ بن جائے گا۔حادثات کی ایک بڑی وجہ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور ان پر بہتا ہوا گندا پانی ہے۔ بڑی شاہراہوں پر آئے دن ٹینکر الٹ جاتے ہیں۔ اگر تحقیق کی جائے تو اس کا ایک سبب خراب سڑک بھی ہوگی۔ کراچی جیسے بڑے اور گنجان آباد شہر کا جائزہ لیا جائے تو ہر سڑک ادھڑی ہوئی ملے گی۔ گڑھوں اور گندے پانی سے غیر ارادی طور پر بچنے کی کوشش میں حادثہ ہوجاتا ہے۔ صوبائی اور مرکزی حکومتیں نئی نئی سڑکیں بنارہی ہیں لیکن جو سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ان پر کوئی توجہ نہیں۔ حال ہی میں یونیورسٹی روڈ کی تعمیر نو ہوئی تھی مگر اس وقت بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ سڑک جگہ جگہ سے ادھڑگئی ہے۔ سفاری پارک کے پاس بڑے بڑے گڑھے پڑ گئے ہیں۔ سیوریج کا پانی ان گڑھوں کو وسیع کردیتا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کبھی شہر کا دورہ کرکے دیکھیں اور جو سڑک گڑھوں اور ٹوٹ پھوٹ سے مبرا ہو اس کا ذکر اپنی پریس کانفرنس میں ضرور کریں۔ کبھی کورنگی کی سڑکوں کا حال بھی دیکھیں اور وہ ہی کیا، ہر سڑک دوہائی دیتی ہوئی نظر آئے گی۔